رسی جل گئی پر بل نہیں گئے
(۔تحریر۔۔۔۔۔۔ شمس
مومند)
یہ ۲۰۰۷ کی بات ہے میں خیبر
ٹی وی کے لئے قبائلی علاقوں سے بدلون کے نام سے خصوصی پروگرام کیا کرتا تھا۔ پروگرام
ریکارڈنگ کے لئے میں اپنی ٹیم کے ہمراہ کرم ایجنسی گیا ہوا تھا ۔ ان دنوں سابقہ کمشنر
مرحوم صاحبزادہ انیس کرم ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ تعینات تھے۔وہ اس سے پہلے مہمند
ایجنسی میں بھی پولیٹیکل ایجنٹ رہ چکے تھے،جہاندیدہ اور انتہائی قابل آفیسر تھے۔ رات
کے کھانے پر انھوں نے مہمند اور کرم قبائل کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں اقوام
میں باقی کے علاوہ ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مہمند ایجنسی میں جو لوگ تعلیم حاصل
کرتے ہیں ۔ یا اندرون و بیرون ملک کاروبار سے پیسے کماکر مالدار بن جاتے ہیں تو وہ
اپنا علاقہ چھوڑ کر مختلف شہروں کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ معاشرتی ترقی سیاسی و سماجی
شعور یا تعلیم سے آتی ہے یا پھر پیسے سے اور بدقسمتی سے نہ مالدار لوگ مہمند ایجنسی
میں رہنے کو تیار ہے نہ تعلیم یافتہ۔اس لئے مہمند قوم میں معاشرتی تبدیلی نہیں آتی
ہے وہاں سماجی اور معاشرتی ترقی کا عمل انتہائی سست ہے ۔جبکہ کرم ایجنسی خصوصا پارا
چنار کے لوگ اعلی تعلیم اور کافی پیسے کے باوجود اپنے علاقے میں رہنے کو ترجیح دیتے
ہیں جس کی وجہ سے یہاں سماجی ترقی اور سیاسی شعور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ مرحوم
صاحبزادہ انیس کی بات میں کافی وزن تھی اور انھوں نے دونوں اقوام اور وہاں کی صورتحال
کا نہایت مناسب تجزیہ کیاتھا۔ لیکن میری رائے ان سے مختلف تھی۔ میں نے کہا ، انیس صاحب
زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اس کو امن اور سکون کیساتھ گزارنا ہر انسان کا بنیادی حق
ہے۔ جو لوگ اپنے تعلیم یافتہ مالداراور مہذب لوگوں کی قدر کرنے کی بجائے ان سے بغض
رکھتے ہیں ان سے لڑائیاں لڑتے ہیں ۔ جابے جا ان کی مخالفت کرتے ہیں ، ان پر کیچڑ اچالتے
ہیں ان کی کردار کشی کرتے ہیں ۔ ایسے معاشرے میں تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگی اجیرن
بن جاتی ہے ۔ ان مالدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس دو ہی راستے بچ جاتے ہیں کہ یا
تو انہی لوگوں کی طرح جاہل بن کر آئے روز بات بے بات لڑائیاں لڑوں ، بندوق اٹھاو، گولی
چلاو، مارو یا مرجاو۔ اور یا بوریا بستر سمیٹ کر سکون اور امن کی تلاش میں ہجرت کرجاو۔
اور ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ کوئلے کی کان میں رہ کر ہر چیز کوئلہ
اور نمک کی کان میں ہر چیز نمک بن جاتی ہے۔
ایک دانشور کا قول ہے کہ معاشرے میں زندگی
گزارنے کے دو طریقے ہیں یا تو آپ اتنا طاقتور اور بڑا لیڈر بن جاو کہ پورے معاشرے کو
اپنی سوچ کے مطابق بدل ڈالو، یا پھر خود تبدیل ہوکر معاشرے کی طرح بن جاو۔ تیسرا راستہ
بے چینی بے سکونی اور مس فٹ ہونے کا راستہ ہے۔ گزشتہ روز ضلع مہمند میں ایک ایسے مہذب
تعلیم یافتہ نوجوان کو گولی مارکر قتل کیا گیا۔ جو اپنے تو درکنار دوسروں کے بچوں کو
معذوری سے بچانے نکلا تھا ۔ جو پرائیوٹ اور سرکاری سکولوں میں جاجاکر بچے بچیوں کو
زندگی گزارنے کے آداب سکھاتا۔ جو اپنے حال کو گزارنے اور اپنے بچوں کا مستقبل روشن
اور تابناک بنانے کا آرزو مند تھا۔ جی ہاں واجد مومند۔ ایک ایسا ہی نوجوان تھا۔ جن
کو اپنی تہذیب و ثقافت سے پیار تھا ، جور سماجی اورثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیتا تھا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری نبہاتے ہوئے پولیوسے انکاری
والدین کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ان سے اپنے معصوم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی
درخواست کی۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ جس معاشرے میں اختلاف رائے کا مطلب مرنا اور مارنا
ہو وہ معاشرے واجد مومند جیسے اعلی تعلیم یافتہ ہنس مکھ فرمانبردار اور مہذب لوگوں
کو برداشت نہیں کر سکتے ۔ وہاں کے جاہل لوگ تعلیم کی عظمت اور بردباری کا بوجھ نہیں
اٹھا سکتے۔ جس معاشرے میں سینکڑوں سالوں تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا
رہا ہو وہ معاشرے آئین پاکستان کی عملداری میں آنے کے باوجود گولی اور گالی کو ہی اپنے
مسائل کا حل سمجھتی ہیں حالانکہ یہی گالی اور گولی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی
جڑ ہے۔ اسی جہالت ، نام نہاد طاقت کے زعم اور خودساختہ آزادی نے قبائلی عوام کو مہذب
اور ترقیافتہ معاشروں سے دو سو سال پیچھے رکھا ہے۔ لوگ تعلیم اور سائینس کی بنیاد پر
خلا ء میں گھر بنانے اور مریخ کی سیر کو روانہ ہو رہے ہیں جبکہ ہم ابھی تک سولویں صدی
کی مانند اس بات پر بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں کہ اگر میں اپنے بچوں کو معذور
بنانا چاہتا ہوں تو آپ کون ہے اسکو بچانے کی کوشش کرنے والے۔ حالانکہ دنیا کے فلاحی
ریاستوں میں بچے والدین کے نہیں بلکہ ریاست کا اثاثہ ہوتا ہے اگر والدین اپنے بچوں
کی صحت تعلیم اور دوسری ضروریات کا خیال نہیں رکھ سکتی تو ریاست بچوں کو ان والدین
سے الگ کرکے ریاستی اداروں کے حوالے کر دیتی ہے۔ تاکہ ہر لحاظ سے اسکی مکمل پرورش کو
یقینی بنایا جاسکے۔
واجد مومند کا قتل ایک انسان کا قتل ہے
اور ارشاد ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ دوسری
بات یہ کہ قبائل کو اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی ذہنیت سے نکلنا ہوگا، نام نہاد
علاقہ غیر اور آزاد قبائل کا دور اب گزچکا۔اب قانون کا دائرہ سابقہ فاٹا کے کونے کونے
تک پھیل چکا ہے۔ گولی اور گالی کا راج مزید نہیں چل سکتا۔ واجد مومند کا قتل ریاستی
اداروں کے لئے بھی ٹسٹ کیس ہے۔ اس کیس میں قانون کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کے
خاندان کو مکمل سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا علاقے میں حکومتی عملداری قائم ہونے
یا نہ ہونے کا تعین کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ ریاستی ادارے اپنے آزمائشی کام کی ابتدا
اپنی ناکامی سے نہیں کرے گی۔اللہ واجد مومند کے بیوی بچوں اور خاندان کو صبر جمیل اور
بہترنعم البدل عطا فرما۔آمین
No comments