قومی تاریخ کے نام پر نفرت انگیز دروغ گوئی
جہاں تک لفظ "افغان" کے ساتھ "قوم پرستی" کے نام پر قوم فروشی اور پاکستان دشمنی کے نظریات کے پیروکار گلمرجان کی غیر صحتمندانہ دلچسپی کا تعلق ہے تو یہ بھی انکی پختون، شناخت، روایات یا تاریخ سے دلچسپی کی بنیاد پر نہیں بلکہ پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہے- پشتون تاریخ اور شناخت بھی ظاہر ہے پاکستان کی اسلامی تہذیب کا ہی حصہ ہے جسکا ایک بڑا حصہ ہمارا افغانستان کے ساتھ مشترک بھی ہے- پختون کو فارسی زبان میں افغان کہا جاتا تھا جس کا ظاہر ہے موجودہ افغانستان سے شہری کیلئے استعمال ہونے لفظ افغان جسکو ہم عرف عام میں "افغانی" کہتے ہیں سے کوئی تعلق نہیں- فارسی کا اس خطے کی ادبی اور درباری زبان ہونے کی وجہ سے چند عظیم پختون شعرا کے علاوہ علامہ اقبال نے بھی فارسی اصطلاح یا لقب پشتونوں کیلئے استعمال کیا جو کہ انکا اپنا نام نہیں تھا- پختون جس کی زبان پختو اور رواج پختون ولی ہے خود کو ہمیشہ سے صرف پختون ہی کہتے رہے ہیں- آج بھی پختونخوا پختونوں کا سب بڑا گھر تاریخی گھر ہے جو ریاست پاکستان کا حصہ ہے- جس طرح پاکستان کے باقی اقوام کے تہذیب و ثقافت کا ارتقاء اسی سرزمیں پر ہوا اور یہی ملک انکا تاریخی طور پر سب سے وطن ہے اسی طرح پختو زبان اور ثقافت کا اتقاء پختونخوا میں ہوا جہاں پختونوں کی 70 فیصد آبادی رہتی ہے جبکہ پاکستان کے جنوبی ساحل پر واقع شہر کراچی دنیا میں پختونوں کی سب سے بڑی شہری آبادی رکھتی ہے- آج بھی عام پختون افغان کا لفظ افغانی کیلئے استعمال کرتے ہیں خود اس سے کوئی جذباتی یا سیاسی تعلق نہیں رکھتے- ہاں تاریخی طور اس نسل اور زبان جو فارسی زبان افغان لفظ کا استعمال تھا وہ اب متروک یا غیر متعلق ہوچکا ہے چونکہ اب یہ افغانستان کے شہریوں کیلئے مخصوص ہے جس کی صرف 40 فیصد آبادی پختونوں کا ایک اقلیتی اور پسماندہ حصہ ہے- ہمارے پٹوار خانے کے ریکارڈ میں بھی پختون کیلئے افغان کا لفظ ہمارے بندوبستی ریکارڈ میں فارسی زبان کا تاریخی استعمال ہے جسکو گلمرجان نے بوجوہ قران کی لفظ کا تقدس دیا ہوۓ بلکل ایسے ہی جیسے کہ خوشال خان خٹک کے ایک شعر کو جو کہ پشتو کے پہلے عظیم شاعر تھے اور پنجاب اور پختونخوا کے سنگھم پر واقع نوشہرہ کے باسی تھے جبکہ انکے دور میں افغانستان نامی کسی ریاست کا وجود تک نہیں تھا- ایسے تو پختونوں کو ہندوستان میں پٹھان اور روہیلہ بھی کہتے تھے لیکن وہ الفاظ آج پختون اپنے لیے استعمال نہیں کرتے- نسلی طور کسی پاکستانی کا خود کو افغان کہنے سے کوئی مسلہ نہ ہوتا کیونکہ پاکستان دنیا کے اکثر کثیر النسلی مملکتوں یا ملتوں کی طرح ایک کثیرالثقافتی اکائی ہے پنجاب میں کئی ملین لوگ خود کو مغل، راجپوت، پٹھان، کیانی، سید، کشمیری، ترک اور گجر کہتے ہیں لیکن گلمرجان اس لفظ کے غلط استعمال سے پختونخوا کو افغانستان کا "فطری" یا تاریخی حصہ بناتا ہے اور پاکستان کے خلاف نفرت اور جھوٹ پھیلاتا ہے جو کہ ہماری تاریخ کا مزاق اور شناخت کی توہین ہے- محمود غزنوی ترک تھا کبھی نہ اس نے خود کو افغان کہا اور نہ کبھی البیرونی جیسے اس وقت کے مورخین نے انکو افغان کہا- غزنوی سلطنت غزنی (موجودہ افغانستان) میں قائم تھی اور لاہور (موجودہ پاکستان) اسکا سرمائ دارلحکومت تھا جسکا گوورنر ایاز تھا- اسی طرح شہاب الدین غوری بھی ترک و ایرانی یا تاجک تھا جو غور (افغانستان) میں پیدا ہوے اور جہلم (پاکستان) کے قریب دفن ہیں- احمد شاہ ابدالی سدوزئی پختون تھے اور دہلی کے پہلے پختون لودھی سلطانوں کی طرح ملتان (پنجاب) میں پیدا ہوا ہوۓ- یہ تینوں مسلمان فاتحین اور پاکستانیوں افغانیوں کے مشترکہ تاریخی مشاہیر ہیں اسلئے پاکستانی فوج نے انکے ناموں کو اپنے میزائلوں کے ذریعے بھی یاد کیا ورنہ تو کابل کے موجودہ کفیل ہند کی تاریخ میں یہ ڈاکو کہلاتے ہیں- جبکہ شیر شاہ سوری کے دادا کا تعلق موجودہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے سے تھا انہوں نے موجودہ افغانستان کی شکل تک نہیں دیکھی تھی انکو موجودہ افغانستان سے ملانا جہالت ہے- کابل کبھی پختون سیاست اور ثقافت کا مرکز نہیں رہا آج بھی وہاں صرف 25 % پختون ہیں جبکہ غور میں صرف 3 سے 6 فیصد- پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں پختونوں کا تناسب شائد کابل میں پشتونوں کے تناسب سے زیادہ ہے جو کہ گندھارا (قدیم پختونخوا) کے تاریخی پہاڑیوں مارگلہ (مارگلئی) کے دامن میں واقع ہے-
-------------------------------
پاکستان میں اسلام کے ظہور اور چند مسلمان فاتحین کی موجودہ افغانستان کی سرزمین سے فوج کشی کے متعلق بھی کی بازاری قسم کے نظریے اور گھٹیا نعرے میں سوشل میڈیا کے نیم خواندہ قائرین میں کافی مقبول ہے- اس معاملے میں بھی حسب معمول بھارتیوں کی فلمیانہ قسم کی غیر معیاری پروپیگنڈے کو کابلی افسانوں سے ملا کر دیسی لبرل اور پی ٹی ایم کا گلمرجانی طبقہ ایک بیانیہ تیار کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کے لوگ چند حملہ آوروں کے وجہ سے ہندو سے مسلمان ہوۓ- اس سلسلے میں عرض ہے کہ مستند معاصر تاریخ کا تمام مواد ایسے کسی افسانہ نگاری کی گنجائش نہیں چھوڑتا کیونکہ اس زمانے مسلمان مورخین اور دانشور تاریخ نگاری میں مغرب سے بھی کہیں آگے تھے جبکہ ہندو دیومالا تو تاریخ ہی نہیں تخیل ہے- خوارزم (وسطی اشیا) میں پیدا ہونے والے البیرونی جو 1000 سال پہلے ترک النسل محمود غزنوی کے دربار سے منسلک تھا اپنے دور کا عظیم ترین جغرافیہ دان، ماہر طبیعات (فزریسسٹ)، سائنسدان، اور تاریخ نگار تھا جنہوں نے جہلم (پنجاب) کی تحصیل پنڈ دادن خان میں نندانا کے مقام پر ایک ٹھیکری پر بیٹھ کر کرہ عرض کا مدار اس دور میں معلوم کیا جب کہ یورپ میں اکثر لوگ زمین کی گولائی پر ہی یقین نہیں رکھتے تھے- انکی معرکتہ الراء "کتاب الہند" آج بھی اس دور میں ہمارے خطے کی تاریخ اور معاشرت پر بہترین تصنیف ہے- داتا گنج بخش علی ہجویری سید کی اولاد میں یعنی سید تھے اہل بیت کی اولاد اور انکا شجرہ معلوم ہے- انکے والد کئی اور صوفیا کی طرح وسط ایشیا اور افغانستان کے راستے اس خطے میں آۓ اس دور میں جب مسلمان سمندر کے راستے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں سندھ (موجودہ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان) اور خشکی کے راستے مسلم خراسانی کے زیر قیادت وسط ایشیا اور ایران تک اموی خلافت پھیلا چکے تھے لیکن باقی علاقوں پر اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں اور لادینوں سمیت غیر مسلم کی تھی اور حکمران ہندو- کابل پر تب ہندو شاہی راج کا جے پال حکمران تھا- اسلام بطور دین بہرحال جنوبی ایشیا اور افغانستان میں عسکری فتوحات سے نہیں پھیلا بلکہ صحابہ کے دور سے ہی آنے والے مبلغین اور بعد میں صوفیا کرام کی تبلیغ سے پھیلا جن میں اکثریت سید (اہل البیت کی اولاد) عرب تھے یا پھر سید ہونے کا دعوا کرتے تھے ورنہ تو آج دنیا کے سب سے مسلم آبادی والے انڈونیشیا یا ملیشیا میں کوئی مسلمان نہ ہوتا جہاں کوئی مسلم فوج نہیں گئی اور ہندوستان میں کوئی ہندو نہ رہتا جہاں 800 سال مسلمان حکمران رہے- باقی نہ تو غزنوی افغان یا پشتون تھا اور نہ ہی داتا گنج بخش- ایک ترک تھے دوسرے عرب- محمود غزنوی نے آنند پال کی حکومت ختم کرکے غزنی میں اپنی سلطنت سے باقی افغانستان کو فتح کیا- جے پال کو محمود غزنوی کے ہی ہاتھوں آخری شکست نومبر 1001 عیسوی میں لڑی گئی تاریخی پشاور کی لڑائی میں ہوئی تھی جس میں تضحیک آمیز شکست کے بعد انہوں نے راجپوت روایات کے مطابق خود کو جلا خود کشی کرلی تھی- اسکی پوری تفصیل محمد ابن عبد الجبار عتبی کی معاصر تاریخ "کتاب الیمنی" میں موجود ہے- جے پالا کے لشکر میں راجپوتوں کے علاوہ بہت سے ہندو یا بدھ یا لادین افغان بھی تھے جو کہ ظاہر ہے گلمرجان کے خیالی 5000 افغانی افسانے کی نفی ہے- دوسری طرف محمود کی لشکر میں بھی کئی مقامی مسلمان تھے کیونکہ اسلام کے تبلیغ تو پاک افغان خطے میں خلفاء راشدین اور صحابہ کے دور میں ہی شروع ہوگئی تھی جوکہ پشاور میں مدفون اصحاب بابا (سنان بن سلمہ) جیسے صحابیوں اور کراچی میں آسودہ خاک عبدللہ شاہ غازی جیسے اہل بیت کی آمد کی ثابت ہے بلکہ امام ابو حنیفہ (رض) کے والد بھی خلافت امام علی (کرم الله وجھہ) کابل کے راستے اسی خطے سے مدینہ گئے تھے اورسندھ و ملتان پر محمد بن قاسم کی حکومت کا قیام اسی کا سیاسی نتیجہ تھا- مغل دور کے تاریخ فرشتہ کے مطابق تو غزنوی حملے کے وقت ملتان کا مسلمان حکمران حمید کا خاندان بھی لودھی پشتون تھے جسکا ظاہر ہے موجودہ افغانستان کے کوئی تعلق نہیں تھا- شائد حمید لودھی کا ذکر 700 سال بعد اسی ملتان شہر میں پیدا ہونے والے سدوزئی پشتون احمد شاہ ابدالی کے ایک شعر میں شیر شاہ سوری کے ساتھ پشتون مشاہیر کے طور پر کیا گیا جنہوں نے بعد میں ایک عظیم مسلمان فتح کی حثیت سے ہند سے الگ افغانستان، کشمیر اور پاکستان پر مشتمل درانی سلطنت بنائی- ان حقائق سے یہی ثابت یہی ہوتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے خطے کے متخلف علاقوں میں اسلام سے خلفاء راشدین کے دور سے لیکر غزنوی دور تک کے 300 میں پھیلا اور پشتونوں سمیت کسی بھی قبیلے یا قوم کا "جد امجد" صحابی نہیں تھا جسکی پوری "نسل" ہی ایک وقت میں مسلمان ہوگئی ہو- صوبوں کے نام پر بنی قوم پرستوں کے محبوب اصطلاحات یعنی "پنجابی"، "سندھی" وغیرہ کا تو خیر انگریز دور تک "اقوام" کی حثیت سے نام ہی نہیں تھا اور ہندو بھی انگریز کے آنے سے پہلے ایک جغرافیائی اصطلاح تھی جسکو فرنگی راج نے ایک مذہبی اصطلاح کے طور پر رائج کیا- ان سے پہلے صرف نسلی برادریوں کی بنیاد پر قبیلے ہوا کرتے تھے- بارویں صدی میں شہاب الدین غوری کے دور تک پاک افغان خطے کی اکثریت مسلمان ہوگئی تھی اور یہی انکے پرتھوی راج کے خلاف اس علاقے پر اپنی دعویداری اور جنگ کی وجہ بھی بنی- دلیل اور مستند ثبوت کے ساتھ تاریخ ایک چیز ہوتی ہے اور دروغ گوئی اور غلمرجانی جہالت سے اپنی ہی قومی تاریخ کی مٹی پلید کرنا کچھ اور جوکہ ظاہر ہے صرف عامیانہ پروپیگنڈوں اور گھٹیا نعروں کے ہی کام آسکتی ہے-
=============================
سوشل میڈیا بلکہ سنجیدہ "سیاسی" مباحثوں میں بھی پاکستانیوں کیلئے "رنجیت سنگھ کی اولاد" والا گھٹیا طعنہ 5000 سالہ جعلی تاریخ کے مضحکہ خیز دعوے کی طرح افغانیوں کا پرانا نعرہ ہے جس سے گلمرجان خود کو احمد شاہ ابدالی کی اولاد کہہ کر اپنی دلپشوری کرتا ہے- اسی طرح بالی وڈ سے تاریخ اور کرنٹ افیرز سیکھنے والے بھارتی پاکستانیوں کو "نو مسلم ہندو" کہ کر اپنی ننھی سی جھوٹی آنا کو تسکین دیتے ہیں جس سے دیسی لبرل بھی مستفید ہوتا ہے- فکری طور پر ان نچلے کھیل میں دونوں اطراف سے پختونوں کی تاریخ کی سب زیادہ تختہ مشق بنایا جاتا ہے جو کہ ہم جیسے پاکستانی پختونوں کیلئے ظاہر ہے تکلیف دہ امر ہے - عرض یہ ہے کہ پاکستان اور پنجاب میں اسلام 712 عیسوی یعنی 1300 سال پہلے آیا محمد بن قسم کے حملے کے ساتھ اور رنجیت سنگھ صرف 200 سال پہلے گزرا ہے جب پورے پنجاب میں سکھ صرف تقریباً 12 فیصد تھے- سکھ مذہب کا تو پہلا گرو 15ویں صدی عیسوی میں آیا اور ان سے بھی دو سو سال پہلے گزرے پنجاب کے عظیم مسلمان صوفی شاعر اور مبلغ بابا فرید ادین گنج شکر کے تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو سے سکھ مت کی بنیاد رکھی- بابا فرید بھی ملتان میں پیدا ہوۓ اور احمد شاہ ابدالی ابدالی بھی وہی پیدا ہوۓ جنکو یہ افغانی گلمرجان اپنی جھوٹی تاریخ کے مطابق اپنا دادا سمجھتے ہیں جبکہ دہلی کے پہلے پختون لودھی حکمرانوں کا سیاسی مرکز بھی ملتان ہی تھا جنکا ذکر احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک شعر میں شیر شاہ سوری کے ساتھ اپنے اشعار میں اپنے پختون اسلاف کی تعریف کے ساتھ کیا- (د شیر شاہ اور د حمید دور بیا شی- چی پہ تورو پختانہ کڑی گزارونہ)- رنجیت سنگھ کابل کے ان نااہل اور عیاش حکمرانوں کی نالائقی کی وجہ سے پنجاب کا حکمران بن بیٹھا تھا جو کہ احمد شاہ ابدالی کے عظیم مسلمان سلطنت کو سنبھال نہ سکے اور رنجیت کو پنجاب کا گورنر بنا دیا اور آخر میں حسب روایت پختونخوا کو بھی چھوڑ کر بھاگ گئے کابل میں پناہ لینے جس کو یہ کبھی نہ بچا سکے- آج 5000 ہزار سال کے جعلی تاریخ کے افیون کے نشے میں مبتلا جوؤں سے بھرے لمبے زنانہ بالوں کے ساتھ بغیر ختنے کے پھرنے والا کوچی (خانہ بدوش) بھی خود کو احمد شاہ بابا کا ڈائریکٹ پوتا اور ہر پاکستانی کو رنجیت سنگھ کا اولاد کہ کر جھوٹ اور نفرت پھیلاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے آنے سے پہلے افغانستان میں پاکستانی پنجاب (جو کہ پنجاب کا 70 % ہے) سے زیادہ سکھ آباد تھے- احمد شاہ ابدالی عظیم مسلمان فتح اور ہمارے مشترکہ ہیرو تھے جو پاکستان میں پیدا ہوۓ اور کندھار میں دفن ہیں جہاں سے انہوں نے پاکستان اور افغانستان پر مشتمل ایک عظیم مسلمان سلطنت بنائی اسی لیے ہمارا ایک میزائل انکے نام پر ہے- لیکن انکی ساری اولاد انکی طرح باکردار اور قابل نہیں تھی اور انکی وزیروں اور جانشینوں کے اکثریت پاکستان میں ہے- حقیقت یہ ہے کہ انکا پوتا شاہ شجاع جو کہ موجودہ افغانستان کے بانیوں میں سے ہے ایک گھناونے کردار کا ملک تھا جو کہ انگریزوں کا پیشن خور بنا اور رنجیت سنگھ سے کوہ نور کے بدلے وظیفہ اور پناہ لیکر مشرقی پنجاب میں سکھوں کی عنایت کردہ ایک عیش کدے میں رہتا تھا- احمد شاہ بابا کے باقی جانشین قیام پاکستان کے بعد تک حکومت کے طرح سے کوہاٹ میں دی گی جاگیر کے مالک رہے اور آج انکے قلعے درانی فورٹ میں پاک آرمی کی 11 کور کے 9 ویں انفنٹری ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے-
---------------------------------------



No comments