خاصہ دار۔اگر یہ آپ ہے تو میں کہاں گیا؟۔
( شمس مومند )
قصہ مشہور ہے کہ پرانے وقتوں میں ایک سادہ لوح اور ان پڑھ دیہاتی شہر جارہا تھا لیکن اسے ڈرتھا کہ کہی گم نہ ہو جائے۔دیہاتی کی بیوی ان سے بھی دوگنا زیادہ سادہ لوح تھی۔انھوں نے شوہر کے خوف کا حل یہ نکالا کہ ان کے دائیں پاوں پر کپڑا باندھ دیا۔ کہ اگر آپ گم ہوگئے تو اس کپڑے کی مدد سے ہم آپ کو ڈھونڈ لینگے۔ دیہاتی شہر پہنچا اور ابھی آدھا کام بھی نہیں کیا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ ان کے پاوں پر تو بیوی کا بندھا ہوا کپڑا نہیں ہے۔ لہذا انہیں یقین ہوگیا کہ بس وہ گم ہوچکا۔ انھوں نے چیخنا شروع کیا میں گم ہوگیا۔۔ میں گم ہوگیا۔۔ لوگوں کی تسلی تشفی کے باوجود وہ چیختا رہا کہ میں گم ہوگیا۔ اسی اثنا میں انھوں نے ایک اور شخص کو دیکھا جس نے اپنے پاوں کو زخمی ہونے کیوجہ سے کپڑے سے باندھ لیا تھا۔ سادہ لوح دیہاتی نے اس شخص کو ہاتھ سے پکڑا اور چلا یا ۔ میں مل گیا میں مل گیا۔ میں یہ ہوں۔ وہ بندہ حیران ہوکر پوچھنے لگا۔۔۔ اگر یہ آپ ہے تو میں کدھر گیا۔؟قبائلی اضلاع میں ایک صدی سے خدمات انجام دینے والی خاصہ دار اور لیوی فورس کو کم وبیش ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زبانی دعووں کے باوجود تحریری ضمانت اور کوئی باقاعدہ واضح طریقہ کار نہ ہونے کیوجہ سے اپنی نوکری سمیت اپنا تاریخی حیثیت کھوجانے کے خوف سے دوچار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب پختونخوا جیل خانہ جات پولیس کے اہلکار ضلع مہمند کے تحصیل یکہ غنڈ میں جیل کا انتظام سنبھالنے اور لیوی سے چارج لینے وہاں پہنچے تو انہیں خاصہ دار اور لیوی کی جانب سے شدید مزاحمت کے بعد خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا۔ کیونکہ خاصہ دار اور لیوی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ اگر علاقے میں امن بحقال کرنے اور انضمام کے بعد آپ لوگ صوبے کے باقی اضلاع سے آکر ہمارے اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو آپ ہوگئے تو ہم کدھر گئے ہماری قربانیاں کہا گئیں ہماری جاب سیکیورٹی کی ضمانت کون دے گا۔ قربانی دینے والے قبائلی مشران اور نمائندہ افراد کو مراعات کے نام پر دئے گئے نوکریوں کا کیا بنے گا۔ شہید اور زخمی ہونے والے سینکڑوں اہلکاروں کے پسماندگان کو کیا ملا۔ یہ اور اس سے ملے جلے سوالات کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے زرا ان حالات کا پس منظر سنئے۔ سابقہ فاٹا اور موجودہ قبائلی اضلاع میں خاصہ دار فورس انگریز دور حکومت سے چلی آرہی ہے اور انھوں نے گزشتہ تقریبا سو سال سے قبائلی روایات ایف سی آر اور اپنے ذاتی بندوق کے ذریعے فاٹا میں قیام امن کو ممکن بنایا تھا۔نہ کوئی ٹریننگ، نہ عمر کی کوئی حد، نہ کوئی سروس سٹرکچر، نہ کوئی تحریری پوسٹنگ ٹرانسفر، نہ پولیس اور ایف سی کی طرح بھاری بھر کم تنخواہیں،مگر جب اور جہاں پولیٹیکل انتظامیہ کو ضرورت ہوئی ۔ یہ سادہ لوح دیہاتی غیر منظم فورس انتظامیہ کے لئے ڈھال بن گئی۔ یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ اپنی زندگی سے کھیلنے والے اس دور پر آشوب میں جب موت کے خوف سے پشاور میں ایف سی کے سینکڑوں جوانوں نے ڈیوٹی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ درجنوں نے باقاعدہ استعفی دے کر جان کی امان پائی۔۔کوئی خاصہ دار یا لیوی اہلکار ڈیوٹی سے نہیں بھاگا۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانی اسی سادہ لوح اور غیر منظم خاصہ دار اور لیوی فورس نے دی۔اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق صرف مہمند ایجنسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک سو پینتیس جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔میں جب بھی علاقہ مچنئی کے عائشے کور سے گزرتا ہوں ۔سات مارچ دو ہزار نو کی رات میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ جہاں دن بھر لڑ کر اسی فورس نے اپنے افسران کی حفاظت کی اور رات کو دہشت گردوں نے بھرپور طاقت سے دوبارہ حملہ کرکے چودہ جوانوں کو زندہ ذبح کردیا۔ ایجنسی ہیڈ کوارٹر غلنئی جاتے ہوئے کڑپہ کے مقام پر میں اس چوکی سے منہ موڑ لیتا ہوں جہا ں اٹھارہ فروری دو ہزار سولہ کی رات سات بے گناہ نوجوانوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کر کے خود کو امر کردیا۔ اگر میں اس قسم کے واقعات گننا اور لکھنا شروع کروں تو اس کے لئے کالم نہیں کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ صرف مشت از نمونہ خروار تھا، باجوڑ سے وزیرستان تک ہر پہاڑی کے پتھر قبائلی مشران اور جوانوں کے خون کی چھینٹوں سے رنگین ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انضمام کے وقت ان لوگوں سے وزیر اعظم سمیت تمام اعلی حکام نے جو وعدے کئے ہیں ان کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ اگرچہ حکام کا وعدہ ہے کہ تمام خاصہ دار اور لیوی اہلکاروں کو پولیس کی باقاعدہ تربیت دے کر پولیس میں ضم کیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس راہ میں بھی کئی ایک مشکلات ہے جس کا بروقت ادراک اور مناسب حل نکالنا ضروری ہے۔ مثلا خاصہ دار فورس میں سینکڑوں ایسے افراد موجود ہے جس کی عمر ساٹھ سال سے بڑھ چکی ہے۔ اسکو کس طرح کھپایا جاسکتا ہے؟ سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جو اپنے والد بھائی یا چچا کے نام کی نوکری کر رہے ہیں کیونکہ وہ یا تو فوت ہوچکے ہیں یا پھر انتہائی بوڑھے۔ ایسے درجنوں افراد ہیں جنہیں یہ نوکریاں ان کی گراں قدر خدمات کے صلے مراعات کے طور پر دی گئی ہیں اس قسم کے لوگ سرکاری نوکری کی بجائے اپنے کسی ملک یا سفید ریش کی سیکیورٹی پر مامور ہوتے ہیں۔ ایسے بھی سینکڑوں افراد ہیں جن کی ایک نوکری کی تنخواہ چار پانچ خاندان آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ نوکری ان کو وراثت میں ملی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلا آرہا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ اگر حکومت نے اس انداز سے اس پر کوئی ہوم ورک کیا ہے کہ ان سب اقسام اور افراد کو کسی طرح مطمئن کیا جاسکتا ہے تو بہتر ہوگا کہ پولیس کو چارچ دینے سے پہلے اپنے اس سکیم سے عوام سمیت تمام خاصہ داروں کو آگاہ کیاجائے۔ تاکہ وہ مزاحمت کی بجائے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے چارج پولیس کے حوالے کرے۔ اگر حکومت نے کوئی باقاعدہ ہوم ورک ابھی تک نہیں کیا ہے توہم اس مسئلے کے حل کے لئے درجہ ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں۔۱۔ چالیس سال سے کم عمر کے تمام لیوی اور خاصہ دار اہلکاروں کو تربیت دے کر پولیس فورس میں ضم کیا جائے۔ ان کو وہ تمام مراعات دی جائے جو پہلے سے موجود پولیس اہلکاروں کو حاصل ہے۔مگر ان میں سے جو لوگ پولیس کی ملازمت اختیار نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کو ان کی ملازمت کی طوالت کے حساب سے ہر سال کی نسبت چار تنخواہیں یکمشت( گولڈن شیک ہینڈ) ادا کرکے رخصت کیا جائے۔
۲۔ چالیس سال سے زیادہ عمر کے وہ اہلکار جنھوں نے پچیس سال ملازمت پوری کرلی ہے یا ان کی عمر ساٹھ سال تک پہنچ چکی ہے۔ان کو مناسب گریجوٹی (جو دس لاکھ سے کم نہ ہو) ادا کرکے ماہانہ کم از کم دس ہزار پنشن دے کر عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ اور جنکی ملازمت پچیس سال سے کم ہو ان کو اسی انداز میں اپنا پچیس سالہ کیرئیر مکمل کرنے کا موقع دیاجائے۔ اس کے بعد اسی طریقہ کار کے مطابق گریجوٹی اور پنشن دیا جائے۔
۳۔ وہ اہلکار جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ ہیں۔ یا جو فوت ہوچکے ہیں جن کی جگہ متبادل افراد ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں ۔ ان کے ایک ایک بچے کو مخصوص کوٹے پر پولیس ملازمت فراہم کی جائے۔
۴۔ سینئر پوزیشن پر کام کرنے والے صوبیدار اور صوبیدار میجر صاحبان کی اہلیت و صلاحیت جانچنے کے لئے ایک بااختیارکمیٹی بنائی جائے جو ان کو پولیس میں ان کی صلاحیت اور تعلیم کے مطابق مناسب عہدے پر رکھنے یا مناسب مراعات کیساتھ پنشن دے کر رخصت کرنے کا فیصلہ کرسکے۔ حکومت کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے کئے گئے وعدوں کی تکمیل اور واضح پالیسی کے بغیر خاصہ دار اور لیوی سے اختیارات لے کر پولیس کودینے کا حکم دو فورسز کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش تصور ہوگی۔ جو انضمام کی رفتار سمیت وہاں امن و امان کی صورتحال اور آئندہ انتخابات پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔


No comments