Breaking News

برابرکے شہری اور ہمارے بچے



 ( تحریر‘ شمس مومند)
دسمبر کی ستائیس تاریخ کی انتہائی یخ بستہ رات جب پشاور میں درجہ حرارت منفی ایک کو چو رہا تھا ۔ میں نے گھر جاتے ہوئے اشارے پر گاڑی روکی۔ ایک پانچ سالہ بچہ ہاتھ میں پھولوں کے گجرے اٹھائے سردی سے ٹھٹر تے ہوئے روہانسا ہورہا تھا، جس گاڑی کے پاس بھی جاتا لوگ پھول خریدنے کی بجائے انہیں دس بیس روپے تھماتے اور وہ دوسری گاڑی کی طرف لپکتا۔یہ منظر اتنا دردناک تھا ۔ کہ میرے تو باقاعدہ آنسو نکل آئے۔ وہاں ہر گاڑی میں موجود ہر شخص کی نظریں اس فرشتے جیسے معصوم بچے کے گرد گھوم رہی تھی۔ جسے شومئی قسمت نے مزدور یا بکھاری بنا دیا تھا۔ اور ہر ایک اپنی بساط کے مطابق ان کو کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیونکہ میری طرح شاید ہر ایک کو اس میں اپنا بچہ نظر آرہا تھا۔ کہنے کو تو یہ ایک معمول کا منظر تھا جو ہم آئے روز کسی نہ کسی چوک اور چوراہے پر دیکھتے اور بھول جاتے ہیں ۔ مگر اس درد کی شدت نے مجھے آج تک بے چین کر کے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔اس وقت سے لیکر اب تک میں سوچتا رہاہوں۔ کیا اس بچے کے والدین زندہ ہیں، اگر ہاں تو وہ خود کس حال میں ہونگے۔ ان کی کیا مجبوریاں ہو سکتی ہے جوشدید سردی میں ایک ایسے بچے کی کمائی کے محتاج ہیں جو ابھی ماں کی گود میں کھیلنے کا حقدار ہے۔ اگر ان کے والدین اس قدر مجبور ہیں تو مخیر حضرات اور فلاحی ادارے کیا کر رہی ہے اگر ان کے والدین پیشہ ور لوگ ہیں اور اس معصوم کے ذریعے لوگوں کی ہمدردیوں کا غلط فائدہ اٹھا رہی ہے تو ریاستی ادارے کہاں ہیں؟اس بچے کے والدین تک پہنچنا کس کی ذمہ داری ہے؟
ان سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ملکی آئین جمہوریت سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے بلند و بانگ دعوے سنتے ہیں تو بندہ حیران رہ جاتا ہے کیونکہ آئین کا دفعہ گیارہ واضح کرتا ہے کہ چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی بھی نامناسب ماحول میں کام پر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ کیا ان حالات میں جب آئے روز ہم چار پانچ سال کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان قتل کے واقعات سنتے اور دیکھتے رہے ہیں ایک پانچ سالہ بچے کی رات آٹھ بجے ویران سڑکوں پر پھول بیچنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسی آئین کا دفعہ پچیس اے ریاست کو پانچ سے سولہ سال کے درمیان تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کا پابند بناتا ہے مگر کاش کہ ایسا ہوتا۔ اگر تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے تو گارنٹی دیتا ہوں کہ دس سال میں ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ جبکہ دفعہ پینتیس بچے اور اس کی ماں سمیت پورے خاندان کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ یہاں تک تو بات ریاست حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی ذمہ داری کا ہے۔ اور اس پھول بیچنے والے معصوم فرشتے کی طرح ایک ایک بچے کی مزدوری بھیک، گند اٹھانا اور آوارہ پھرنا اس بات کی گواہی ہے کہ سرکاری ادارے آئین کی پاسداری میں بری طرح ناکام ہے۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ گلی محلے بنانے پر سیاست دانوں کو ووٹ دیتے ہیں بعض قوم پرستی کے نعرے لگاتے ہیں کوئی سول بالادستی تو کوئی کرپشن کی روک تھام کوسیاسی نعرہ بناتا ہے مگر افسوس کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے بچوں کی لازمی تعلیم اور تحفظ کو اپنا سیاسی ایجنڈا نہیں بنایا ۔
جہاں تک غریب اور ان پڑھ والدین کا تعلق ہے ان کو صرف اس بات پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں پر سرمایہ کاری کرے۔ کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ غریب ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں سے مزدوری کرواتے ہیں یا ان کے بچے گلی محلوں میں گھوم پھر کر روزی ڈھونڈتے ہیں ۔ مگر میری نظر میں یہ بات اس کے بالکل الٹ ہے یعنی حقیقت میں جو لوگ اپنے بچوں سے مشقت کرواتے ہیں وہی ہمیشہ غریب رہتے ہیں، کیونکہ اگر غریب سے غریب والدین بھی صرف دس بارہ سال مشکل میں گزار کر بچے کو پڑھائے اور اسے باعزت زندگی کے گر سکھائے، تو وہی غریب بچہ اس کی غربت کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور ہمارے اسی غریب معاشرے میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
انتہائی غریب والدین کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معصوم بچوں کو مشقت پر لگانے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے باغ میں بہترین پھل لگے ہو مگر مالک اس کے پکنے کا انتظار کئے بغیر اسکو توڑکر بیچنے یا استعمال کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح وہ کچا پھل نہ بکے گا نہ وہ خود اسکو کھا سکینگے۔ بلکہ ضائع ہوگا۔ اور مالک کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ اس کے پورے سال کی محنت مشقت اور خرچہ ضائع ہوگا۔ یہی حال ان والدین کا ہے جو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور ان کی جوانی کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی تن آسانی کی خاطر معصوم بچوں کو مشقت پر لگاکر اپنا اور خود اپنے ان معصوم بچوں کے مستقبل کو ضائع کر رہے ہیں۔ اور ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ آئین کی رو سے بچے بڑے غریب مالدار معذورمرد خواتین بوڑھے سب برابر کے شہری ہے جبکہ ان میں سے بچوں اور خواتین بوڑھوں اور معذوروں کو خدمت اور خیال کے لحاظ سے دوسروں پر فوقیت حاصل ہے اس لئے ان لوگوں سے خدمت لینے کی بجائے ان کی خدمت کی ضرورت ہے۔
بچوں کے حوالے سے ایک بہت ہی خوبصورت قول ہے، کہ دنیا میں ہر بچے کی ولادت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی ابھی اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہواہے۔دوسری بات یہ کہ رب کائنات کے خزانوں میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں اگر وہ بنی اسرائیل کے عوام کو جنت سے من وسلوی کھلا سکتا ہے تو پختونخوا کے تمام بچوں کو بھی مالدار پیدا کر کے یہ مسئلہ جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے، مگر اللہ تعالی کے تمام کاموں میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔شاید یہاں اللہ تعالی ہم باقی صاحب ثروت عوام، سیاست دانوں بیوروکریٹس ،سوشل ورکرز اور حکمرانوں کو جانچنا چاہتا ہے، کہ ہم سب نیک بننے، خادم بننے اور ہمدرد بننے کے محض دعوے کرتے ہیں یا حقیقت میں 
کوئی عملی قدم اٹھانے کے رودار بھی ہیں۔اللہ ہم سب کو عملا انسانی بھلائی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


No comments