Breaking News

آج کا نیا لطیفہ


                                                                                                                         
(تحریر: محمدارشدخان)
آج کا نیا لطیفہ جمہورے "جیالوں" کے ایک پرانے جھوٹ کا ساتھ- " جس زمانے اصف زردی کے بزرگ برصغیر کے مسلمانوں کی خدمت کیلیے“سندھ مدرسہ الاسلام کراچی اپنی جیب اور لگن سے قائم کررہے تہےجہاں سے قائداعظم نے تعلیم حاصل کی اس زمانے نیازی گروہ جنگلوں میں چھپ کر راہ زنی اور بردہ فروشی کرتا تھا" - ویسے لطیفہ تو نسلا ً کشمیری لوہاروں لیکن پاکستان کی جعلی جمہوریت کے بدولت پنجاب کے جعلی شیر شاہ سوریوں اور انکے پٹواری نما درباریوں کا عمران خان کو "نیازی" کسی گالی کے طرح کہنا بھی ہے لیکن ان گزارشات سے اسکی بھی وضاحت ہوجائیگی- حقیقت یہ ہے کہ سندھ مدرستہ السلام کی بنیاد جناب حسن علی آفندی نے ١٨٨٥ میں رکھی تھی- اس ادارے سے جو اب ایک یونیورسٹی ہے بانی پاکستان محمد علی جناح کے علاوہ ذولفقارعلی بھٹو کے دادا اور ریاست جوناگڑھ کے وزیر اعظم سر شاہ نواز بھٹو نے بھی تعلیم حاصل کی تھی- حسن علی آفندی ایک ترک النسل سندھی تھے کوئی زرداری نہیں- زرداری بلوچوں کا سندھ میں مقیم ایک نچلے درجے کا قبیلہ ہے جسکی تاریخ میں واحد شہرت چوری چکاری کی ہے اور اس پر سندھی محاورہ موجود ہے کہ کوئی چیز گم ہو تو کسی زرداری نے چرائی ہوگی- حسن آفندی کی پڑپوتی بیگم بلقیس سلطانہ حاکم علی زرداری کی دو بیویوں میں سے ایک بیوی تھی اور اور زرداری کی والدہ تھی- اس سے حسن علی آفندی کے کارناموں کا بین القوامی شہرت یافتہ نوسرباز زرداری سے کیا تعلق پیدا ہوگیا؟ یہاں مقصود عمران خان کی ذات پر بحث نہیں لیکن جہاں تک عمران خان کے میانوالی میں نیازی اباؤ اجداد کا تعلق تھا تو نیازی قبیلہ نسلا ً پشتون ہیں اور برصغیر کی معلوم تاریخ کے عظیم ترین پشتون حکمران شیر شاہ سوری کا بازؤۓ شمشیرزن تھا- اس وقت اسکی قیادت ہیبت خان نیازی کے ہاتھوں میں تھی جو خواص خان مروت کے ساتھ شیر شاہ کے دو بہترین جرنیلوں میں سے ایک تھا- ہیبت خان کے کارناموں میں پنجاب اور سندھ میں باغی راجپوت اور بلوچ قبائل کی سرکوبی کرکے امن امان اور پہلا انتظامی ڈھانچہ قائم کرنے کے علاوہ کشمیر کی فتح شامل تھی - اسکے علاوہ عیسا خان نیازی جنکا پرشکوہ مقبرہ آج بھی دہلی میں موجود ہے لودھی پشتوں حکمرانوں کی حکومت سے لیکر شیر شاہ سوری کی سلطنت تک وزیر رہا اور میانوالی کی موجودہ تحصیل عیسا خیل انہی کے نام سے ہے- اسکےعلاوہ ١٧٦١ میں احمد شاہ ابدالی کے پانی پت کی تیسری جنگ پر منتنج ہونے والی ہندو قوم پرستوں کے خلاف فیصلہ کن مہم میں بھی یوسفزئی، مہمند، بنگش، وزیر، آفریدی اور دیگر پشتون قبیلوں کے ساتھ میانوالی کے نیازیوں کا ایک مضبوط لشکر شامل تھا- میانوالی کا علاقہ جو کہ تاریخی طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ رہا ہے ١٩٧٣ کے آئین کے تحت صوبوں کی نئی حد بندی میں پختونخوا کے قوم پرستی کے نام قوم فروشی کی سیاست کرنے والے کچھ سیاستبازوں کی مرضی یا منشا پر پنجاب میں شامل کردیا گیا- جہاں تک عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا تعلق ہے تو وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے کانیگرم کے برکی قبیلے کے اس برادری سے تعلق رکھتی تھی جو مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر میں لودھی پشتون حکمرانوں کے دور میں جاگیریں لیکر آباد ہوگئی تھی- پشتو زبان کے پہلے نثر نگار، صوفی، پشتو حروف تہجی کے موجد اور شہشاہ اکبر کے خلاف دین اکبری کے معاملے پر جنگ کا علم بلند کرنے والے پیر روشان اس برادری کے جد امجد سمجھے جاتے ہیں جو خود بھی جالندھر میں ہی پیدا ہوۓ لیکن بعد میں مغل شہنشاہ کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں اپنے آبائی وطن وزیرستان متقل ہوگئے تھے اور ٹوپی (صوابی - خیبر پختونخوا) کے قریب شہید کر دئیے گئے تھے- امید ہے اس مختصر پسمنظر سے کم از کم پاکستان کے وزیر اعظم کے خلاف نسل پرستانہ نعروں کے کھوکھلے پن کی وضاحت ہوگئی ہوگی باقی سیاسی نظریہ ہر کسی کا ذاتی ہوتا ہے-

No comments