آزاد میڈیا معاشرے کے لیئے خطرے کی علامت؟
(تحریر ۔۔ ثمیرہ صدیقی)
آذادی ایک نعمت خراوندی ہے مسلسل جدوجہد اور بیشمار قربانیوں کے بعد ہمارے آباواجداد نے یہ وطن حاصل کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے آباواجداد نے یہ وطن کیوں حاصل کیا۔
ہندوستان میں غیر مسلموں نے مسلمانوں کی حیثیت ایک ملازم کی کردی تھی انہیں مذہبی آذادی نہ تھی جب آذان ہوتی تو ہندو مندر میں گھنٹیاں بجانے لگتے مسلمان نماز نہ پڑھ پاتے رشوت لینا،سور کی چربی کا استعمال یہ کسی نہ کسی طریقے سے انہیں کروایا جاتا ہر کام میں مسلمان پیچھے ہورہے تھے روزگار نہ تھا مسلمان صرف گھروں کے کاموں کے لیے رہ گئے تھے۔اس لئے نوجوان نسل میں شعور بیدار کیا گیا تاکہ آنیوالی مسلمان قوم کو مذہبی اور ریاستی آذادی حاصل ہو۔ جب نوجوان نسل بیدار ہوئی تو مسلمانوں نے ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا اور صرف مطالبہ نہ کیا الگ ریاست بنائی بھی بیشمار قربانیوں اور جدوجہد کے بعدایک ریاست قائم ہوئی جس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان کا بننا آسان نہ تھا مگر پاکستان کا وجود مسلمانوں کے لیے ضروری تھا تاکہ مسلمان آزاد ہو سکیں اللہ نے مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک نعمت عطا کی اور مسلمانوں کو مذہبی اور ریاستی آزادی حاصل ہو۔
اب ہم پاکستان کو دیکھیں تو اب پاکستان میں جو نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ بیراہ روی کا شکار ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہماری منزل کہاں ہے انہیں نہیں معلوم انہیں کیا کرنا ہے ان کا اصل مقام کیا ہے۔ آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ آزاد نہیں ہیں وہ لاشعور ہیں ان کے اندر شعور کی کمی ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول بتائے ہیں ان اصولوں پر چل کر ہماری دنیاوآخرت بہتر ہو سکتی ہے۔ ہم آہستہ آہستہ سنت سے دور ہو رہے ہیں جن باتوں کو پہلے معیوب سمجھا جاتا تھا اب ان کو اب لاشعوری طور پر غیر معیوب سمجھا جاتا ہے۔
دین اسلام میں اللہ نے سب چیزوں کی حدود مقرر کی ہیں اگر ہم اس دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو ہم غلط راہ اختیار کرلیتے ہیں اور ہر کام کی سزاوجزا کے بارے مسلمانوں کو آگاہ کردیا گیا ہے تاکہ ہر فرد اس مقرر کردہ حدود سے باہر نہ نکلے ورنہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ جسے آج کل میڈیا میں الٹے ہاتھ سے کھانا اور ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنا عام ہو رہی ہے۔ پہلے لوگ اپنے بڑوں سے سیکھتے تھے مگر اب سب کچھ ٹی وی ڈراموں سے سیکھتے ہیں ہمیں بتادیا گیا سیدھے ہاتھ سے کام کرنے پر ہمیں ثواب ملتا ہے مگر ڈراموں میں الٹے ہاتھ سے کھانا پینا دیکھانا نئی نسل کو اصل میں گمراہ کرنا ہے ہماری نئی نسل الٹے ہاتھ سے کھانے پینے کو اپنے لیئے اچھا سمجھ کر اس چیز کو اپنا رہی ہے اور ٹخنوں سے پائنچے اوپر آج کل فیشن ہو گیا ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ لاعلمی کی وجہ سے کتنے سخت عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں.
ہمارامعاشرہ خرابی کی طرف اس لیے بڑھ رہا ہے کیوں کہ ہم نے اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسروں کی تہذیب اپنا لی ہیں۔ ہم نوجوانوں کو کچھ موبائل نے تباہ کردیا اور کچھ ڈراموں نے اگر ہم چند سال پہلے کا معاشرہ دیکھیں اس میں ہمیں اپنی تذیب نظر أئے گی جس میں لوگوں کو اپنے بڑوں سے عزت استاد کا احترام اٹھنے بیٹھنے کی تمیز اور بات کرنے کا سلیقہ دیکھائی دے گا
پہلے لوگ اپنے بڑوں کی باتیں سنتے بڑوں کی باتیں سننے سے ان کے اندر تبدیلیاں آتیں ان کو اچھے برے کی تمیز ہوتی اوران کی تربیت بھی ہو جاتی تھی۔ ہم أج کے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے ہمارے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں ان کا رجھان صرف موبائل پر یا ڈراموں پر ہوتا ہے أج کے دور کے نوجوں بزرگوں سے پاس وقت نہیں گزارتے اس لیئے انہیں اپنی تہذیب کا کچھ علم نہیں انہیں اس بات کا علم ہے کہ ہندو کون سا تہوار کب کیسے اور کیوں مناتے ہیں اور وہ کس طرح اور کون کون سے کھانے کھاتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہو گا کہ انگریز کس طرح بیٹھ کر کس طرح کس ہاتھ سے کھاناکھاتے ہیں کس طرح کا لباس زیب تن کرتے ہیں بس انہیں اپنا نہیں پتا کہ ہمارا مذہب کس طرح کی تعلیم دیتا ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ
’’رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دوزخ والوں کی قسم جسے میں نے نہیں دیکھا وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہیں‘‘
(صحیح مسلم،5582)
ہماری سنت کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور کھانے کے بعد ہاتھ دھو کر صاف کرنا کھانے سے پہلے دعا پڑھنا سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانا کھانے کے درمیان بات نہ کرنا ہے ہمارا لباس ایسا ہو جس سے ہماراسترچھپ جائے آج کل مرد عورت کالباس اور عورتیں مردوں کالباس زیب تن کر رہی ہیں۔
میری سب لوگوں سے گزارش ہے کہ میڈیا پر جو ہمیں چیزیں غلط دکھائی جا رہی ہیں اس کو روکیں اور بچوں کو صحیح غلط کا فرق بتائیں سیدھے راستے کو اپنایں اور نوجوان نسل کو دین اسلام کے بارے میں صحیح تعلیم دیں اور اگر کسی کو غلط راستے پر چلتا دیکھیں تو اسے سیدھا راستہ دیکھانا آپ کا فرض ہے اگر آپ کی وجہ سے کوئی بھی فرد صحیح راہ پر چل پڑے تو کیا پتا آپ کی دنیا وآخرت سنور جائے اور اگر ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کو صحیح کریں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنایں تو ہمارا معاشرہ صحیح ہو سکتا ہے۔
ہندوستان میں غیر مسلموں نے مسلمانوں کی حیثیت ایک ملازم کی کردی تھی انہیں مذہبی آذادی نہ تھی جب آذان ہوتی تو ہندو مندر میں گھنٹیاں بجانے لگتے مسلمان نماز نہ پڑھ پاتے رشوت لینا،سور کی چربی کا استعمال یہ کسی نہ کسی طریقے سے انہیں کروایا جاتا ہر کام میں مسلمان پیچھے ہورہے تھے روزگار نہ تھا مسلمان صرف گھروں کے کاموں کے لیے رہ گئے تھے۔اس لئے نوجوان نسل میں شعور بیدار کیا گیا تاکہ آنیوالی مسلمان قوم کو مذہبی اور ریاستی آذادی حاصل ہو۔ جب نوجوان نسل بیدار ہوئی تو مسلمانوں نے ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا اور صرف مطالبہ نہ کیا الگ ریاست بنائی بھی بیشمار قربانیوں اور جدوجہد کے بعدایک ریاست قائم ہوئی جس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان کا بننا آسان نہ تھا مگر پاکستان کا وجود مسلمانوں کے لیے ضروری تھا تاکہ مسلمان آزاد ہو سکیں اللہ نے مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک نعمت عطا کی اور مسلمانوں کو مذہبی اور ریاستی آزادی حاصل ہو۔
اب ہم پاکستان کو دیکھیں تو اب پاکستان میں جو نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ بیراہ روی کا شکار ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہماری منزل کہاں ہے انہیں نہیں معلوم انہیں کیا کرنا ہے ان کا اصل مقام کیا ہے۔ آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ آزاد نہیں ہیں وہ لاشعور ہیں ان کے اندر شعور کی کمی ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول بتائے ہیں ان اصولوں پر چل کر ہماری دنیاوآخرت بہتر ہو سکتی ہے۔ ہم آہستہ آہستہ سنت سے دور ہو رہے ہیں جن باتوں کو پہلے معیوب سمجھا جاتا تھا اب ان کو اب لاشعوری طور پر غیر معیوب سمجھا جاتا ہے۔
دین اسلام میں اللہ نے سب چیزوں کی حدود مقرر کی ہیں اگر ہم اس دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو ہم غلط راہ اختیار کرلیتے ہیں اور ہر کام کی سزاوجزا کے بارے مسلمانوں کو آگاہ کردیا گیا ہے تاکہ ہر فرد اس مقرر کردہ حدود سے باہر نہ نکلے ورنہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ جسے آج کل میڈیا میں الٹے ہاتھ سے کھانا اور ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنا عام ہو رہی ہے۔ پہلے لوگ اپنے بڑوں سے سیکھتے تھے مگر اب سب کچھ ٹی وی ڈراموں سے سیکھتے ہیں ہمیں بتادیا گیا سیدھے ہاتھ سے کام کرنے پر ہمیں ثواب ملتا ہے مگر ڈراموں میں الٹے ہاتھ سے کھانا پینا دیکھانا نئی نسل کو اصل میں گمراہ کرنا ہے ہماری نئی نسل الٹے ہاتھ سے کھانے پینے کو اپنے لیئے اچھا سمجھ کر اس چیز کو اپنا رہی ہے اور ٹخنوں سے پائنچے اوپر آج کل فیشن ہو گیا ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ لاعلمی کی وجہ سے کتنے سخت عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں.
ہمارامعاشرہ خرابی کی طرف اس لیے بڑھ رہا ہے کیوں کہ ہم نے اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسروں کی تہذیب اپنا لی ہیں۔ ہم نوجوانوں کو کچھ موبائل نے تباہ کردیا اور کچھ ڈراموں نے اگر ہم چند سال پہلے کا معاشرہ دیکھیں اس میں ہمیں اپنی تذیب نظر أئے گی جس میں لوگوں کو اپنے بڑوں سے عزت استاد کا احترام اٹھنے بیٹھنے کی تمیز اور بات کرنے کا سلیقہ دیکھائی دے گا
پہلے لوگ اپنے بڑوں کی باتیں سنتے بڑوں کی باتیں سننے سے ان کے اندر تبدیلیاں آتیں ان کو اچھے برے کی تمیز ہوتی اوران کی تربیت بھی ہو جاتی تھی۔ ہم أج کے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے ہمارے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں ان کا رجھان صرف موبائل پر یا ڈراموں پر ہوتا ہے أج کے دور کے نوجوں بزرگوں سے پاس وقت نہیں گزارتے اس لیئے انہیں اپنی تہذیب کا کچھ علم نہیں انہیں اس بات کا علم ہے کہ ہندو کون سا تہوار کب کیسے اور کیوں مناتے ہیں اور وہ کس طرح اور کون کون سے کھانے کھاتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہو گا کہ انگریز کس طرح بیٹھ کر کس طرح کس ہاتھ سے کھاناکھاتے ہیں کس طرح کا لباس زیب تن کرتے ہیں بس انہیں اپنا نہیں پتا کہ ہمارا مذہب کس طرح کی تعلیم دیتا ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ
’’رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دوزخ والوں کی قسم جسے میں نے نہیں دیکھا وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہیں‘‘
(صحیح مسلم،5582)
ہماری سنت کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور کھانے کے بعد ہاتھ دھو کر صاف کرنا کھانے سے پہلے دعا پڑھنا سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانا کھانے کے درمیان بات نہ کرنا ہے ہمارا لباس ایسا ہو جس سے ہماراسترچھپ جائے آج کل مرد عورت کالباس اور عورتیں مردوں کالباس زیب تن کر رہی ہیں۔
میری سب لوگوں سے گزارش ہے کہ میڈیا پر جو ہمیں چیزیں غلط دکھائی جا رہی ہیں اس کو روکیں اور بچوں کو صحیح غلط کا فرق بتائیں سیدھے راستے کو اپنایں اور نوجوان نسل کو دین اسلام کے بارے میں صحیح تعلیم دیں اور اگر کسی کو غلط راستے پر چلتا دیکھیں تو اسے سیدھا راستہ دیکھانا آپ کا فرض ہے اگر آپ کی وجہ سے کوئی بھی فرد صحیح راہ پر چل پڑے تو کیا پتا آپ کی دنیا وآخرت سنور جائے اور اگر ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کو صحیح کریں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنایں تو ہمارا معاشرہ صحیح ہو سکتا ہے۔

No comments