Breaking News

انضمام کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ ہوشیار باش




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (شمس مومند) 
اگرچہ ملک بھر میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اور ہر گزرتے دن کیساتھ اس میں مزید تیزی آتی جائے گی۔ ایسی صورتحال میں ہرسیاسی جماعت اور سیاسی رہنماء کی پوری توجہ صرف انتخابات پر مرکوز ہوتی ہے اور اس بات کا امکان کم ہے کہ انضمام کی مخالف سیاسی جماعتیں اس موقع پر انتخابی سرگرمیوں کے علاوہ انضمام مخالف تحریک چلانے کی کوشش کرے،البتہ جمعیت العلماء اسلام (ف) کے انتخابی امیدوار انضمام کی مخالفت کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرینگے۔ جس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اگر صرف ایک پارٹی فاٹا میں انضمام مخالف نعرے کیساتھ میدان میں اترے گی تو باقی تقریبا دس جماعتیں اس کی حمایت میں اسی میدان اور عوام کے درمیان ہوگی۔ اور ان تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یہی بہترین موقع ہے کہ وہ عوام کو براہ راست انضمام کے فوائد سے آگاہ کر ے۔ اور اپنی متفقہ کوششوں سے اس انتخاب کو فاٹا کے علاقے میں انضمام کے حق میں ریفرنڈم ثابت کرے۔
مگر انضمام کی مخالفت صرف سیاسی جماعتیں نہیں کر رہی ہے ۔ مفاد پرست بیوروکریسی اور روایتی ملکان صاحبان کا گٹھ جوڑاس موقع پر عوام کو گمراہ کرنے اور علاقے میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو براہ راست یا بالواسطہ ان سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی جو کھلم کھلا فاٹا انضمام کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اس لئے مکرر عرض ہے کہ فاٹا سیاسی اتحاد کے ذمے بھاری ذمہ دار عائد ہوتی ہے۔ انضمام کے حامی سیاسی جماعتوں کے امیدوار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کی بجائے اپنی صلاحیتیں ان مخالف قوتوں کے خلاف استعمال کرے۔ عوام کو اب تک ایف سی آر کے کالے قوانین اور ان کی محرومیوں کی وجوہات سے آگاہ کرے ، عوام کوبتایا جائے کہ کس نے انہیں ستر سال تک بنیادی حقوق اور شہری سہولیات سے محروم رکھا۔ کس نے نام نہاد آزاد ی کے نام پر ان کے ہاتھ میں بندوق اور اپنے بچوں کے ہاتھ میں قلم دیکر ان کا استحصال کیا۔ ان کو ان مفاد پرست مخالفین کا اصل چہرہ دکھایا جائے جو خود اسلام آباد پشاور چارسدہ کوہاٹ ڈی آئی خان اور بنوں میں رہائش پزیر ہیں ان کے بچے ملک کے بہترین پرائیوٹ اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ اور ان کے تمام خاندان بجلی کا بل بھی دیتے ہیں پولیس نظام کے تحت زندگی بھی گزارتے ہیں ، اور شہری علاقوں میں امن تعلیم صحت ٹیلی فون اور انٹر نیٹ جیسی شہری سہولیات کے مزے بھی لیتے ہیں۔ مگر سادہ لوح قبائلی عوام کو نام نہاد آزادی کے نام پر پولیس اور بجلی کے بل سے ڈراکر مزید محروم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہی وہ مفاد پرست ٹولہ ہے جو اپنے لئے ملکی قوانین اور صوبے کا نظام چاہتے ہیں مگر قبائلی عوام کے لئے الگ فاٹا اورمحرومی کو پسند کرتے ہیں۔ عوام کو بتا یا جائے کہ ملکی قوانین اور آئین کے دائرے میں آنے سے ان کو کون کونسی بنیادی حقوق مل جاینگے۔ ان کو بتا یا جائے کہ اب قبائلی علاقہ سرزمین بے آئین نہیں رہا ۔ اب اس علاقے کو دوسروں کے لئے جنگی میدان کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ اب یہ علاقے مجرموں اور مفروروں کی پناہ گاہیں نہیں ہوگی جس کے فائدے مجرم اٹھاتے اور بدنامی قبائل کے حصے میں آتی۔ یہ علاقے اب ہیروئن کی فیکٹریوں اور منشیات فروشی کے لئے استعمال نہیں کئے جاسکے گے۔ اب جبکہ یہاں امن ہوگا تو یہاں قانونی کاروبار بھی ہوگا۔ اور لوگ زیادہ اطمینان کیساتھ سرمایہ کاری بھی کرینگے۔ جس کا براہ راست فائدہ یہاں کے عوام کو ملے گا۔
یہ مفاد پرست ٹولہ سب سے پہلے سادہ لوح قبائلی عوام کو پولیس، عدالت اور بجلی کے بل سے ڈراتے ہیں اور ان کا مقصد تیزترین ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہے تا کہ اپنی انا اور مفادات کے لئے بعد میں ثابت کر سکے۔ کہ انضمام کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس کی ایک زندہ مثال مہمند ایجنسی سے ملحقہ متنازعہ پچیس دیہات کا کیس ہے۔ جس کو انیس سو ننانوے میں،چھ سال پہلے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن پر عملدر آمد کرتے ہوئے ضلع چارسدہ اور پشاور میں شامل کیا گیا۔ اس وقت حکومت کی غلطی یہ تھی کہ کسی بھی مشاورت، گفت و شنید اور ترقیاتی کاموں کے بغیر سب سے پہلے پولیس کو تعینات کردیا گیا۔ مقامی لوگوں نے اس کی بھرپور مزاحمت کی۔ اور ایک لمبی احتجاجی تحریک کے علاوہ پولیس تھانوں کو دس سال تک آئے روز راکٹوں کا نشانہ بناتے رہے۔ قومی سطح پر پولیس کیساتھ تعاون نہ کرنے اور اضلاع کی طرف سے ترقیاتی سکیمیں نہ لینے کے معاہدے ہوئے۔ اگرچہ اپنی غلطیوں کا احساس ہونے کے بعد اس مزاحمتی تحریک کے اکثر رہنماء آج فاٹا انضمام کے مضبوط حامی ہیں۔ اور عام عوام اب اضلاع کے ترقیاتی سکیموں کے شیدائی، مگر اس مزاحمت سے پچیس دیہات کے تقریبا ایک لاکھ آبادی والے علاقے کو نقصان یہ ہوا، کہ انیس سال گزرنے کے بعد آج پولیس تو پوری طرح تعینات اور متحرک ہے مگر علاقہ ہر قسم کے ترقیاتی کاموں سے محروم رہا۔ انیس سال تک اس پورے علاقے میں کوئی نیا سکول سڑک ہسپتال یا سرکاری دفتر بننا تو درکنار پہلے سے قائم سرکاری اداروں کی مرمت تک نہیں ہوئی، لوگ سالہا سال تک بجلی کے لئے ترستے رہے۔ اوراس طرح یہاں کے عوام کی محرومی پہلے سے بھی بڑھ گئی۔
انیس سال پہلے کی یہ مثال صرف اس لئے دی کہ فاٹا انضمام کے مخالفین انضمام کو تو نہ روک سکے مگر قبائل کی ترقی روکنے اور اسکی محرومی کو دوام دینے کے لئے اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر سکتی ہے۔اس لئے حکومت سمیت انضمام کے حامی سیاسی و سماجی کارکنوں، صحافیوں ، دانشوروں اور خاص کر فاٹاسیاسی اتحاد کو بھرپور تیاری کیساتھ اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تاکہ وہ لوگ اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔

written by : Shams Momand
shamsmomand@gmail.com


No comments