گڈ طالبان، پی ٹی ایم اور وانا کا اصل قصہ:
((محمدارشدخان
وانا کی زمینی حالت جاننے والے ایک دوست نے واٹس ایپ پر کال کرکے بتایا کہ اصل قصہ وہی ہے جسکا اندیشہ تھا- وانا ٢٠٠٧ سے پر امن تھا اور اس امن کے حصول کیلئے موجودہ امن کمیٹی کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان سفاک ازبک دہشتگردوں اور انکے اتحادی ٹی ٹی پی محسود گروپ کے خودکش حملوں اور دھماکوں میں مارے گئے ہیں- ان کے ارکان میں بیشک مولوی نذیر (کاکاخیل احمدزئی وزیر) کے گروپ کے سابقہ طالبان جنگوؤں کے علاوہ انکے قبیلے کے کئی مسلح رضاکار شامل ہیں جو حکومت کیلئے ٹی ٹی پی (محسود گروپ) اور غیر انکے ازبک اتحادی دہشتگرد گروپوں کے ہاتھوں مقامی خاصہ داروں اور مشران کے قتل عام کی بعد مقامی لیویز کا کام کرتے رہے ہیں- یہ انتظام فوج کی طرف سے قبائلی امور کے مائکرو منیجمنٹ کے بجاۓ ایک متبادل کی طور پر فاٹا اصلاحات یا وزیرستان کے مکمل انضمام تک مقامی لوگوں کی حمایت سے جاری رکھا گیا ہے- یہ بھی حقیقت ہے کہ مولوی نذیر جو کہ افغان شہریت بھی رکھتا تھا، قندہار میں جائیداد کا مالک تھا اور ملا عمر کا حمایتی ہونے کے علاوہ پاکستانی ریاست کی خلاف جنگ، خود کش حملوں اور وزیرستان میں ازبک، عرب اور دوسری غیر ملکیوں کے موجودگی کے خلاف تھا اسلئے "گڈ طالبان" کے تعریف میں آتا تھا اور اسی وجہ سے امریکہ اور افغانستان کی علاوہ بیت الله محسود، حکیم الله محسود اور ازبکوں کے نشانے پر بھی رہا تھا لیکن پاکستانی ریاست کے ساتھ بھی وہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا رہا اور بلاخر جنوری ٢٠٠١ میں انگور اڈا پر ڈرون حملے میں مارا گیا اور اسکے گروپ نے بھی بہت حد تک مکمل حکومتی رٹ قبول کرلی بلکہ امریکیوں کے طرف سے بھی ان کو راڈار سے ہٹا دیا گیا- اس لحاظ سے موجودہ حالات میں وزیرستان میں مکمل بندوبستی نظام کے نفاز تک امن کمیٹی صرف فوجی کا نہیں سیاسی انتظامیہ کا بھی اثاثہ ہے- دوسری طرف پی ٹی ایم کے تمام تر ظاہری "آئینی مطالبات" اور نام نہاد لبرل ایجنڈے کے باوجود نہ صرف انکے نعرے اور بیانیہ ٹی ٹی پی سے ملتا ہے بلکہ اسکے مطالبات اور "جدوجہد" کیلئے بھرپور حمایتی بیان بھی ٹی ٹی پی کے فوجی آپریشن سے افغانستان بھاگ کر بچ جانے محسود گروپ کے ترجمان اور سینئر کمانڈر عظمت محسود نے ابھی دو ہفتے پہلی سوشل میڈیا پر جاری کیا- اسی وجہ سے پی ٹی ایم اور امن کمیٹی (جنکو بین اقوامی میڈیا کی دلچسپی کیلئے یہ ابھی بھی گڈ طالبان کہتے ہیں) کے درمیان مخاصمت کی وجوہات موجود ہیں گو کہ اگر یہ طالبان ہوتے تو صرف بندوق لیکر نہیں پھرتے بلکہ اپنی امارت قائم کرکے اپنا نظام نافذ کرتے یا کم از کم افغانستان میں لڑتے- یہ عین ممکن ہے کہ پی ٹی ایم کی مظاہرین پر حملہ کرنے میں پہل بھی اس ملّیشا کے مسلح کارکنان نے کی ہو لیکن ظاہر ہے انکے حساب سے وزیرستان کے ماحول میں پی ٹی ایم انکے مخالف ٹی ٹی پی کے مفاد میں کام کر رہی ہے جس کی تصدیق ٹی ٹی پی محسود گروپ خود بھی کرچکی- باقی
ظاہر ہے حکومت/فوج اور پی ٹی ایم کی اپنے اپنے متضاد دعوے ہونگے !
written by: Mohammad Arshad khan

No comments