Breaking News

مفتی منیب الرحمن کے نام کھلا خط

                                                                                                                           
                   (۔۔۔۔ (شمس مومند
محترم جناب مفتی منیب الرحمن صاحب چیئرمین رویت ہلال کمیٹی پاکستان۔۔ آداب عرض ہے
آپ ایک بہت بڑے عالم دین اور دیندار جبکہ میں ایک ادنی سا دنیا دار صحافی، مگر اساتذہ سے سنتے آئے ہیں کہ جو زیادہ پوچھتا ہے وہ زیادہ سیکھتا ہے۔اس لئے آج آپ سے دو چار سوالات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگر آپ زرہ نوازی کر کے ان سوالات کے جوابات اسی طرح کھلم کھلا دے دیں تو مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کی رہنمائی ہوگی۔۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اس مرتبہ دنیا بھر میں رمضان کا مہینہ انتیس دنوں کا قرار پایا۔دنیا بھر میں چاند نظر آیا اور دنیا نے عید منالی۔ ظاہر ہے سعودی عرب کی پیروی میں اسلامی دنیا کا کیلینڈر بنتا ہے کیونکہ اسی مناسبت سے پھر ایام حج اور یوم عرفہ کا تعین ہوتا ہے۔۔۔۔مگر آپ نے پوری دنیا کے برعکس چاند کی رویت سے انکار کرکے ماہ رمضان کو انتیس کی بجائے تیس دن کا بنادیا۔۔۔۔ سوال یہ ہے۔ کہ کیا اب پاکستان کے لئے الگ اسلامی کیلینڈر بنانا پڑے گا ۔ اسی طرح اگر عید الاضحی بھی آپ دنیا سے ایک دن پیچھے منانے کے احکامات دیتے ہیں تو پھر عید قربان کے تیسرے دن جو دنیا بھر میں دراصل عید کا چوتھا دن ہوگا۔۔کیا اس دن قربانی شرعا درست ہوگی۔
دوسرا سوال یہ ہے ، کہ آپ کے حمایتی عام طور پر دلیل دیتے ہیں کہ ہم سعودی عرب یا امریکہ کیساتھ اس لئے عید نہیں منا سکتے کیونکہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے چاند کی عمر بڑھ جاتی ہے اور وہ مغربی ممالک میں نظر آسکتی ہے مگر ہمارے ہاں نہیں۔ سائینسی طور پر دلیل میں وزن ہے۔۔ مگر اس مرتبہ تو انتہائی مشرقی ممالک جاپان آسٹریلیاں اور سری لنکا وغیرہ نے بھی چاند کی رویت کا اعلان کرکے عید منائی،تو سوال یہ ہے کہ اگر ہم سے مشرق میں بھی چاند نظر آیا اور ہم سے مغرب میں بھی نظر آیا تو آپ کو یا آپ کی کمیٹی کو کیوں نظر نہیں آیا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ ہم نے علماء سے حدیث شریف کا مفہوم سنا ہے جس کا لب لباب یہ ہے، کہ جہاں بھی چاند کی رویت کے گواہ پیش ہوئے وہ سب کے لئے ہوگی۔یعنی ہر شخص کے لئے خود چاند دیکھنا لازم نہیں ہے اور اگر پانچ سے دس متشرع مسلمان چاند دیکھنے کی گواہی دے دے۔ تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کی گواہی کو قبول نہ کیا جائے۔آپ باجوڑ چارسدہ مہمند پشاور صوابی مردان کوہاٹ بنوں وزیرستان اور ڈی آئی خان کے درجن بھر مقامات پر انتہائی پرہیزگار مفتی صاحبان کے سامنے پیش ہونے والے سینکڑوں گواہان کی گواہی کو کس بنیاد پر رد کر سکتے ہیں۔حالانکہ یہی وہ علاقے ہیں جہاں روزے و عید کا ملک کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ دینی جذبے کیساتھ اہتمام کیا جاتا ہے۔نہایت معذرت کیساتھ مگر رمضان جانے اور پٹھان جانے والا محاورہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔آپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ گواہ آپ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کیوں نہیں ہوتے۔۔ وہ اس لئے کہ آپ کی کمیٹی غروب آفتاب کے پچاس منٹ بعد فیصلہ کرکے اٹھ جاتی ہے۔ نہ آپ کے زونل کمیٹیوں کا کوئی نمبر مشتہر ہوتا ہے نہ ان کی بیٹھنے کی کوئی مستقل اور معلوم جگہ ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ شہروں میں گردو غبار اور فضائی آلودگی کیوجہ سے چاند کا نظر آنا مشکل ہوتا ہے جب دور دراز دیہات کے لوگ چاند دیکھتے ہیں ۔ پہلے وہ اپنے مقامی مولوی کے پاس جاتے ہیں پھر اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹر یا شہر جانے کا قصد کرتے ہیں اس میں کم از کم ڈیڑ ھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں۔جبکہ آپ ایک گھنٹے میں کام نمٹا کر اعلان کر دیتے ہیں۔اگر آپ شہر شہر گھومنے کی بجائے ہر دفعہ ایک ہی معلوم جگہ پررویت کا اجلاس منعقد کرے ۔ اور آپ کے زونل کمیٹیاں بھی ہر سال ایک ہی معلوم جگہ پر اجلاس کرلیا کرے۔ اپنے اور ان کے نمبر ہر سال ایک دن پہلے مشتہر کرے اور حتمی فیصلہ اپنی دوربین کی بجائے گواہوں کا انتظار کرکے کیا جائے تو اس میں کیا برائی ہے۔اگر آپ چاند کی عدم رویت کا اعلان نو بجے کرنے کی بجائے گواہوں کو قبول کرتے کرتے گیارہ بجے رویت کا اعلان فرماتے۔ اور ایک اہم فریضہ سے سبکدوش ہونے کیساتھ ساتھ امت کی یکجہتی کا زریعہ بھی بن جاتے تو اس میں کیا غلط ہوتا۔ 
چوتھا سوال یہ ہے۔کہ اگر آپ کے عہدے اور مراعات کو فراموش کیا جائے تو سعودی عرب کیساتھ روزہ رکھنے اور عید منانے میں کونسی شرعی حکم مانع ہے۔ مہربانی کر کے قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائے۔ پانچواں سوال یہ ہے کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تو آپ رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین کے عہدے پر براجمان ہے۔ کیا پورے پاکستان میں کوئی دوسرا شخص اس پوزیشن کا اہل نہیں۔ اگر رویت ہلال کمیٹی ایک آئینی و قانونی ادارہ ہے اور اس کے فیصلے ماننا ملک کے تمام شہریوں پر فرض ہے تو پھر اس کے ممبران اور چیئرمین کے انتخاب کا بھی کوئی آئینی و قانونی طریقہ کار ہونا چاہیئے۔ اس کا بھی کوئی ٹینیور ہونا چاہیئے۔ ذاتی کاروبار یا تنظیم کی طرح تاحیات چیئرمین شپ کا کائی جواز نہیں۔ کیا رویت ہلال کے علاوہ کوئی ایک بھی ایسا آئینی ادارہ ہے جس کا چیئرمین اپنی تمام تر من مانیوں ، کوتاہیوں ہٹ دھرمیوں اور قوم میں تفرقہ ڈالنے کے باوجود دس سال سے زیادہ عرصہ اپنے عہدے پر براجمان ہو؟ اگر نہیں تو آپ کیوں۔خدا کے لئے اگر وزیر مذہبی امور، وزیر اعظم صدر مملکت اور چیف جسٹس سمیت کسی کو بھی آپ کو ہٹانے کا اختیار نہیں تو آپ اس بیچارے قوم کی حالت پر خود ہی رحم کیجئے۔ پاکستانی قوم آخری دور کے نام نہاد بلکہ خودساختہ مولوی صاحبان نے پہلے ہی درجنوں فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔آپ صرف اپنے عہدے کی قربانی دیکر نہ صرف قومی یکجہتی کو فروغ دے سکتے ہیں۔بلکہ عید جیسے مذہبی تہوار کو اختلافات کی بجائے اتحاد امت کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔امید ہے میرے سیدھے سادے سوالات کا جواب دینگے اور میری درخواست پر ہمدردانہ غور بھی فرماینگے۔ 

.....................................................................................................................................
Written by Shams Mpmand
shamsmomand@gmail.com




No comments