خالدخان ’’راگ درباری‘‘ میں
(انصار اللہ خلجی)
زمانہ طالبعلمی کے دوست ،شاعر،ادیب اور صحافی خالد خان کی دوسری کتاب "راگ درباری" مارکیٹ میں آگئی ھے۔ دراصل یہ «مارکیٹ» والا جملہ محاورۃ استعمال کیا اصل میں کتاب ھاتھ لگ گئی ھے۔ مارکیٹ تو وہ کتاب ھوتی ھے جسے آپ قیمت ادا کرکے کسی بک سٹال سے خرید لاتے ہیں۔ جبکہ خالد کی دونوں کتابوں یعنی " ہری آنکھ" اور " راگ درباری" کیساتھ ھونے والا معاملہ اس کے برعکس ھے۔ بدقسمتی سے ایک تو ھمارے ہاں مطالعہ کا کلچر دم توڑ رھا ھے اور دوسرا اگر کسی کو تھوڑا بھت پڑھنے کا شوق ھو بھی تو کتاب پر پیسے خرچ کرنے کو تیار نہیں بلکہ لوگ کتاب کی قیمت ادا کرتے ھوئے شرم محسوس کرتے ھیں۔(أن چند دوستوں سے معزرت کیساتھ جو کتابیں خرید کر پڑھتے ھیں). لہذا خالد خان اپنی ھر کتاب یار لوگوں میں جاکر نہ صرف مفت بانٹتا ھے بلکہ میرے جیسے احباب کو درجنوں کتابیں پہنچا کر ساتھ میں یہ تلقین بھی کرتا ھے کہ مطالعہ کے شوقین اور سمجھنے والے لوگوں تک یہ کتاب پہنچنی چاھیئے۔ خالد کی دریا دلی اپنی جگہ لیکن یقین کریں کبھی کبھار سمجھ بوجھ رکھنے والے اور خاص طور پر اسلوب خالد کو سمجھنے والوں میں دو درجن کتابیں تقسیم کرنا بھی مہینوں کا کام بن جاتا ھے۔ کتابیں تو ھر دم گاڑی میں تیار پڑی رھتی ھیں بس کتاب کا حقدار ھونے کے معیار پر بھت کم لوگ أترتے ھیں اور یہی وجہ ھے کہ خالد خان نئی کتاب راگ درباری تو پہنچا کر چلا گیا لیکن میرے پاس اب بھی پچھلی کتاب ہری آنکھ کے نسخے پڑے ھیں۔
خالد خان کی کتابوں پر اگر چہ قیمت تو لکھی ھوتی ھے لیکن میرا نہیں خیال کہ اس نے آج تک اپنی کسی کتاب کی قیمت وصول کی ھو ۔ اس کا مقصد یہ ھر گز نہیں کہ خالد اپنی کتاب کی قیمت لینا نہیں چاھتا بلکہ مسئلہ ھے تو اجتماعی بے حسی کا ۔ میں سمجھتا ھوں کہ خالد خان جیسے لکھاری کی تحریروں سے محروم رہ کر یہ کسی فرد یا
معاشرے کی بد قسمتی تو ھو سکتی ھے لیکن خالد خان جیسے لوگوں کی ھر گز نہیں کیونکہ مصنف نے تو مرنے کے بعد بھی اپنی (تخلیق )کتاب کی صورت میں زندہ رھنا ھے اور شائد پھر ھمیں بھی دستور زمانہ کے مطابق وقت گرنے کے بعد اس بات کا احساس ستائے کہ خالد خان کس قدر اچھے اور آ علی پائے کے لکھاری تھے۔ میری یہ تحریر اس بات کا ثبوت رھے گا کہ میں نے نہ صرف خالد کی زندگی میں اس کے کمال فن کا اعتراف کیا ھے بلکہ اپنے آپ کو آنے والے وقت کی طعنہ زنی سے بھی محفوظ کر لیا ھے۔ اب آتا ھوں کتاب راگ درباری کی طرف کہ اس میں ھے کیا۔ راگ درباری دراصل چھوٹے اور مختصر مگر بھت ھی جامع، گہرے اور معنی خیز مضامین کا مجموعہ ھے۔ اور ھر مضمون پڑھنے کے بعد انسان کو یقیں ھونے لگتا ھے کہ خالد نے جس ۔موضوع پر بھی طبع آزمائی کی ھے اس کو یا تو کسی نے چھیڑا ہی نہیں ھے اور اگر کسی نے کچھ لکھا بھی ھو تو خالد کا منفرد انداز بیاں، مناسب انتخاب و استعمال الفاظ و مرکبات، اور سب سے بڑھ کر جادوئی جدت خیالات اور ہلکے پھلکے انداز میں انفرادی اور اجتماعی مسائل کی نشاندھی ایسی صفات ھیں جو خالد کو نہ صرف اپنے ھمعصر بلکہ گزشتہ ادوار کے لکھاریوں سے بھی ممتاز بناتی ھیں۔
راگ درباری کا ھر مضمون نیا انوکھا اور جدت سے بھر پور ھے اور بار بار پڑھنے کے باوجود کسی مضمون کا لطف کم نہیں ھوتا بلکہ ھر مضمون بار بار پڑھنے کو دل کرتا ھے۔ کوشش کرونگا کہ وقتا فوقتاً ھر مضمون پر اپنا اظہار خیال دوستوں کیساتھ شئیر کرسکوں۔ سر دست اس کتاب کے حوالے سے اتنا کہونگا کہ ھم میں سے ھر کوئی تمام سماجی اور
معاشرتی بیماروں کا ماہر ڈاکٹر اور حکیم ھے لیکن شائد ھم میں سے کسی کو بھی ان بیماریوں کے بارے میں آج تک اتنا سچ اور تلخ حقیقت لکھنے اور بولنے کی توفیق نہیں ھوئی ھو گی جتنی کہ خالد کو اللہ نے عطا کی ھے۔ معاشرے کے ایک عام فرد سے لیکر ایک وکیل، جج ،استاد ،تھانیدار ،پٹواری ، ڈاکٹر، صحافی اور سیاستدان تک سب اس کتاب میں بیان کیے گئے مسائل کو سمجھیں اور ھر فرد اپنی اپنی جگہ ان مسائل کے حل کے لیے مقدور بھر کوشش کرے تو یقین جانیے
کہ اس ملک کی خوشحالی و ترقی کےلئے نہ تو کسی کے نکات اور ایام تک محدود ایجنڈے کی ضرورت پڑےگی نہ ھی اسلام کی بقا اور حفاظت کے لیے " اسلام زندہ باد کانفرنس" منعقد کرانی پڑےگی۔ نہ ھی شیر سب سے مضبوط انتخابی جانور ھوگا اور نہ ھی تیر اور بلا خطرناک آلات اور اوزار ھونگے ۔ نہ ھی پاکستانی سالمیت سبز ہلالی پر چم تک محدود رھےگی اور نہ ھی حق بات کہنے سے ملک ٹوٹےگا۔ کوئی مذھب، قومیت اور تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکہ دے سکے گا اور نہ ھی عوام کا خوش رهنے اور پر سکون زندگی گزارنےکے لیے کسی خاص رنگ کے جھنڈے تلے جمع ھونا لازمی ھوگا۔

No comments