جشن لیکوال ۔ ایک جائزہ
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (شمس مومند

اپنے خدا پہ ہم کو بھی کتنا یقین تھا
طوفاں میں لاکے رکھ دیا گھر کے چراغ کو
لیکوال اب صرف ایک پشتو رسالے کا نام نہیں رہا ہے یہ ایک نظرئے کا نام ہے یہ ایک جدوجہد کا نام ہے یہ ایک مکتبہ فکر ہے ایک ایسا مکتبہ فکر جو جہالت سطحیت اور انجانے پن کے اس دور میں اپنے قاری کو سوچ بچھار، علمیت اور تنقیدی صلاحیت پر اکساتاہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں کروڑوں پشتونوں کی موجودگی اور پچیس سالہ دور حیات میں اس کے خریدار اورقارئین لاکھوں میں ہونے چاہیئے تھیں جو بدقسمتی سے ہزاروں میں بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ اس رسالے کے معیار میں فرق آیا نہ اس کے لب و لہجے میں اور نہ بشر نوید کا یقین محکم متزلزل ہوا۔ اگرچہ پشتو زبان کے باقی کتابوں اور رسالوں کی طرح معاشی اور مالی مسائل تو لیکوال کو بھی ورثے میں ملے ہیں ۔ کیونکہ یہ کسی بھی سیاسی یا سماجی گروہ کسی دولت مند پبلیشر یا کسی شہرت کے شوقین مالدار شخصیت کی سرپرستی کے بغیر صرف اور صرف بشر نوید کی ہمت و حوصلے اور اپنے مقصد کیساتھ خلوص کی بدولت چل رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ اسکو کافی عرصے تک پابندیوں اور سنسر شپ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکوال نے اپنا سفر جاری رکھا۔
گزشتہ روز قومی وطن پارٹی کے چئیرمین اور سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاو نے رسالہ لیکوال کے پچیس سال مکمل ہونے کی خوشی میں جشن لیکوال کے نام سے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں صوبے بھر کے شاعروں ادیبوں اور اہل قلم کو مدعو کیا گیا تھا۔ تقریب میں دوسروں کے علاوہ افغان سفارتکاروں زرتشت شمس اور معین مرستیال کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر معروف دانشور مصنف اور کالم نگار سلیم راز، معروف کالم نگار مورخ اور مزاحیہ نگار سعد اللہ جان برق ،ریڈیو پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر معروف شاعر ادیب اور ڈرامہ نگار لائق زادہ لائق ، پشتو اکیڈمی کے چئیرمین نصر اللہ وزیر ہاشم بابر اکبر ہوتی اقبال شاکر سمیت درجنوں نامی گرامی شخصیات نے بھی شرکت کی۔قومی وطن پارٹی کے رہنماٗ ڈاکٹر عالم نے نہایت خوش اسلوبی اور ادبی ذوق کیساتھ نظامت کے فرائض ادا کر کے اس کا حق ادا کیا۔ انھوں نے اپنے پر خلوص انداز بیاں اور برجستہ اشعار سے حاضرین کے دل جیت لئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سلیم راز نے کہا کہ دور حاضر میں غیر جانبدار رہنا منافقت کا دوسرا نام ہے کیونکہ ظالم اور مظلوم کے درمیان ، حاکم اور محکوم کے درمیان قابض اور مقبوض کے درمیان جنگ میں باشعور لوگ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے ۔ انھوں نے قتیل کا یہ شعر حاضرین کی نزر کیا کہ۔۔۔
قتیل اس سا منافق کوئی دنیا میں نہیں ہے
جو ظم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
بشر نوید نے پشتون کلچر کی بقاء اور ارتقاء کے لئے حکومتی سرپرستی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ رسالے سے کمانے کی بجائے اپنی قلم کی کمائی رسالے پر خرچ کر رہا ہے۔ مگر وہ اپنے ہم فکروں کے لئے لکھتا ہے اور انہیں یہ اطمینان ہے کہ وقت کا جبر اور مشکلات ان کو اپنی راہ سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوا۔
آفتاب احمد خان شیر پاوں نے پشتون وحدت کے لئے فاٹا کا پختونخوا میں انضمام کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ یکجا ہونے سے پشتونوں کی آواز میں وزن پیدا ہوگا کیونکہ اتحاد اور اتفاق ہی طاقت و قوت کا دوسرا نام ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض لوگوں نے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے انضمام کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر دانستہ طور پر پشتون کاز کو نقصان پہنچایا۔ مگر تاریخ انہیں معاف نہیں کریگی۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ انہیں معاف کرے یا نہ کرے مگر ایسا لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں قبائلی عوام بھی انہیں معاف نہیں کر ے گی۔ اور انہیں تاریخ کے اہم موڑ پر قبائلی عوام کی محرومی کو دوام دینے کا حساب دینا پڑے گا۔

No comments