کیا ناگہانی افات سے نمٹنے کا کوئی موثر انتظام موجود ہے؟
قدرتی افات دنیا کے اکثر ملکوں میں اتے رہتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت ان قدرتی افات سے نمٹنے کے لیے تیارہوتی ہے جن افات کی پہلے سے پیشگوئی سائنسی الات کے استعمال سے ممکن ہو تو اپنے عوام کو قدرتی افات کے پہنچنے سے پہلے خبردار کرلیتے ہے اور ممکنہ طور پر انسانی جانوں کی بچت یقینی بنائی جاتی ہے اور متاثرہ افراد کی بحالی کو حکومت اپنا فرض اولین سمجھتی ہیں۔لیکن پاکستان میں 2010 کے سیلاب سے تقریبا 20 ملین افراد متاثر ہوئے تھے جو اج بھی لاکھوں کی تعداد میں دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ حکومت کے ترجیحات میں عوامی فلاحی کا کو ئی کام نہیں جیسے ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق اگاہی کو ہی لے لجیئے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے اور حکومت کیا کر رہی ہے جیسے مون سون کے دنوں میں سیلابوں کی شدت کو کم کیا جاسکے جس سے مالی اور جانی نقصان سے بچا جاسکے اس کے لیے پانی کے چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اگلے 10 برس پاکستان سیلابوں کی زد میں رہے گا اور ہر سال اس کی شدت میں اضافہ ہوگاکیونکہ افغانستان اور پاکستان کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ اور وسیع رقبے پر جنگلات کی کٹاو کی وجہ سے بارشوں کا پانی بہت تیزی سے سیلاب کی شکل میں جنوبی علاقوں کی طرف بہتا چلاجاتا ہے جس سے مکانات اور فصلیں تباہ ہو جاتی ہے اور پانی نشیبی علاقوں میں مہینوں کھڑارہتا ہے جس سے عوام کی زندگی عذاب بن جاتی ہے پاکستان کا22 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن بد قسمتی سے یہ صرف 2 فیصد ہے جو کہ انے والے دنوں میں ٹمبر مافیا کی بے دریغ کٹاوکی وجہ سے یہ بھی نہیں رہے گا۔ گزشتہ دو سالوں کے سیلاب میں حکومت میں شامل اور پنجاب اورسندھ کے بااثر زمینداروں نے اپنے زمین اور فصلوں کو بچانے کے لیے سیلابی گزگاہوں کے پشتوں کوتوڑ کر غریبوں کو برباد کردیا لیکن جب بیرونی امداد کی تقسیم کا وقت ایا تو وہاں بااثر زمیندار اور سیاست دان ہی سب کچھ لوٹ کر غریب عوام کو بے سروسامانی کی حالت میں اللہ کے اسرے پر چھوڑدیا گیا۔سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں فصلوں کی تباہی اور ذخیرا کیاگیا اجناس بھی ضائع ہوئی جبکہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے ملک میں مہاجر بن گئے ۔ اپنے کھیت میں اپنے خاندان کے لیے اناج اگانے والوں کا بوجھ بھی باقی ملک پر اگیا۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادرہ خوراک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پہلے ہی غذائی بحران کا شکار ملک ہے جہاں کی 58 فیصد ابادی کی غذائی ضروریات صحیح طریقے سے پوری نہیں ہو پاتی۔ عالمی ادرہ خوراک پاکستان میں مختلف منصوبوں کے ذریعے تقریبا 74 لاکھ افراد کو غذائی امداد فراہم کر رہے ہیں لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی صورت میں یہ منصوبے مکمل طور پربند یا معطل کیے جاسکتے ہیں عالمی ادارہ خوراک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں جاری منصوبوں کے لیے 70 ملین ڈالر کی کمی کاسامناہے اور کسی بھی ممکنہ افت کی صورت میں ان کے پاس امداد کے لیے کوئی ذخیرہ موجود نہیں ۔ حکومت پاکستان کے ادارہ صحت نے پاکستان میں غذائی سروے کروایا ہے جس کے نتائج بہت پریشان کن اور خطرناک ہیں اس سروے میں خدشہ ظاہر کیاگیا ہے کہ غذائی کمی کی طرف فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو غذائی کمی کے باعث انے والے نسلوں میں ذہنی اور جسمانی کمزوریاں پیدا ہو سکتی ہے۔زچگی کے دوران ماں اور بچوں کے اموات میں اضافہ ہوسکتا ہیں جبکہ ادویات کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے عام بیماریوں پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہاہیںعالمی ادارہ خوراک کی وارنیگ پرتوجہ دینی چاہیے ۔ کیونکہ دنیا میں اوربھی بحران جاری ہے اور امداد دینے والے ممالک کے ترجحات تبدیل ہوتے رہتے ہیں اج کل عرب ممالک پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور زیادہ امداد عرب ممالک میں جھنگجوں پر خرچ کی جارہی ہے ۔ پاکستان کو اپنے مسائیل خود حل کرنے چاہیے ۔اس وقت پاکستان کے پاس جو خوراک کا ذخیرہ گندم ،چاول اور دیگر اجناس کی شکل میں موجود ہیں اس کو سیلاب سے بچانے کا کوئی انتظام کیا گیا ہے یا نہیں خوراک کے ذخیرے کو اس زخیرہ کوبچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس کو محفوظ مقام پر سٹور کریں اور سیلاب سے متاثریں کے لیے خشک خوراک جو کے جلدی خراب نہ ہو کھانے کے لیے فراہم کیاجائے اور غذائی کمی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا تاکہ انے والی نسلوں کو معذور پیدا ہونے سے بچایا جاسکے اس کے لیے پاکستان کے محکمہ صحت کی اور اقوام متحدہ کی سطح پر ٹیم بنانی چاہیے اور ان کی تجاویز کی روشنی میں اگلے دس سالہ پروگرام ترتیب دیا جائے کہ کونسے علاقے ہیں جس کو غذائی قلت کاسامناہے اور اس کمی پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے ۔میری اطلاعات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ میں تعینات فوجی قیادت نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے رسکیو اپریشن کی تیاری کرلی ہے اورسیلاب کی صورت میں عوام کی جان بچانے کے لیے حکمت عملی تیار کر چکے ہے مگر سیاسی حکومت کیا کر رہی ہے ان کو بھی اپنی مکمل تیاری کرلینی چائیے تاکہ سیلاب یا کیسی بھی ناگہانی افت کی صو رت میں اپنے ووٹروں کی جان بچائی جاسکے کیونکہ انے والے الیکشن میں کوئی تو ہو جو ووٹ ڈال سکے۔ حکومت کو خالی دعوں اور سب اچھا ہے کے علاوہ بھی عوام کی فلاح کے لیے حقیقی طورپربروقت اقدامات کرنے چاہئے عوام کو مصیبت اور برے وقت میں بھی یاد رکھنا چاہئے نہ کہ صرف الیکشن کے دنوں میں ووٹ کے لیے یاد آ جاتے ہیں۔

No comments