نوازشریف کی تقریروں پر پابندی
(انور حسین ماگرے)
ہمارے ملکمیں غیرجمہوری اور غیردستوری رویوں اور روایتوں کو درست قرار دینے کی ایک خصوصی تاریخ ہے۔ چوں کہ ماضی سب کا سب کے سامنے ہوتا ہے، اس لیے نہایت آسان سا معاملہ ہے کہ کسی بھی غیرجمہوری روایت یا راستے کو مکافاتِ عمل قرار دے کر خاموشی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جایا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز شریف کی ان تمام تر تقاریر کو نشر کرنے سے روک دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ چوں کہ لائیو کوریج میں نشریاتی ادارے کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا راہ نما کیا کہنے والا ہے، اس لیے مسلم لیگ کے قریب تمام ہی رہنماؤں کی لائیو کوریج ختم ۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو چند ہی ماہ رہ گئے ہیں، یہ پابندی ان انتخابات کی شفافیت پر کئی طرح کے سوالات اٹھا رہی ہے۔ اس سے پہلے کے عدالتی احکامات بھی واضح طور پر میزان کا پلڑا ایک طرف جھکاتے ملتے ہیں۔ نواز شریف صاحب اور مسلم لیگ نواز کا اپنا ماضی خود ایسا نہیں ہے کہ اسے کوئی مثالیہ بنا کر پیش کیا جا سکے۔ گیلانی صاحب کے خلاف 62 اور 63 کے تحت مقدمے کا معاملہ تھا، تو نواز شریف خود کالا کوٹ پہنچ کر سپریم کورٹ کے چکر لگاتے ملتے تھے اور وہ تب تک سکون سے نہ بیٹھے جب تک گیلانی کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ نہیں کر دیا۔ ادھر الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی عائد کی تو اس پر بھی نواز شریف نہایت واضح موقف کے ساتھ عدالتی فیصلے کی حمایت میں کھڑے رہے۔
ادھر ایم کیو ایم کے لوگ، جو الطاف حسین کی تقریر پر پابندی کے غصے کا شکار تھے، آج نواز شریف پر پابندی کو مکافات عمل کہہ کر شاداں ملتے ہیں۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف جشن مناتی اور عدالتی فیصلوں کو ’نیا پاکستان‘ قرار دے کر بھنگڑے ڈال رہی ہے کہ میدان صاف ہوا۔ اس پورے معاملے میں ایک اور بھیانک اور گھٹیا روایت قائم ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی شخص کی آزادیء اظہار رائے کو محدود کر دیا جائے اور چوں کہ محدود کرنے والا ادارہ وہ ہے، جسے شہری آزادی کا تحفظ کرنا ہے، اس لیے پوچھنے والا کون ہو گا؟ ملک میں لوگ فوج اور عدلیہ کےلیے اچھی زبان تک استعمال نہیں کر رہے آخر یہ سب نوبت اتی کیوں ہے
ملک میں اس سے قبل مارشل لا کے ادوار میں آمریت کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ کوئی میڈیا ہاؤس، کوئی صحافی یا کوئی قلم کار کھل کر اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے۔ ان ادوار میں بھی بدقسمتی سے ہماری عدلیہ کس کی گود میں نظر آتی ہے۔ غیرجمہوری اور غیردستوری اقدامات کو عدلیہ نے پی سی او کے تحت حلف لے کر نہ صرف ’نظریہ ضرورت‘ کہہ کر درست اور جائز قرار دیا بلکہ ایسی روایتیں قائم کر دیں، جو اس ملک کی تاریخ میں ہمیشہ عدلیہ کا تعاقب کرتی رہیں گی۔سیاست دانوں نے پارلیمان میں پہنچ کر ایک آمر کی بنائی ہوئی صادق اور امین کی شق کو آئین کا حصہ بنایا اور کبھی نہیں سوچا کہ یہ کسی بھی شخص کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادیء اظہار رائے کی ضمانت دیتے ہوئے ساتھ میں یہ لاحقے بھی شامل کر دیے گئے کہ ملک کی ’سلامتی‘ یا ’دفاع‘ کے معاملات پر اس کی آزادی محدود ہو گی اور وہ ایسا بھی کچھ نہیں کہہ سکتا جو ’توہین عدالت‘ کے زمرے میں آتا ہو۔ ان آرٹیکلز کی تشریح کا حق دستور چوں کہ عدلیہ کو تفویض کرتا ہے، اس لیے یہ وہ طے کرے گی کہ کون سی چیز توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں۔ یعنی اب حالات یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عدالتی فیصلے کو درست نہیں سمجھتا اور اس پر تنقید کرتا ہے، تو وہ توہین عدالت کی زد پر ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ملک کی دفاعی اور سلامتی کی پالیسیوں کو نادرست سمجھتا ہو، تو سلامتی کے ادارے اس کا تعین کیا کریں گے۔ یعنی دودھ کی حفاظت کی ذمہ داری بلی ۔دنیا کے ہر مہذب ملک میں کوئی بھی شہری ملک کی کسی بھی پالیسی، کسی بھی رہ نما، کسی بھی ادارے اور کسی بھی تنظیم پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ رائے نفرت انگیزی، نسل پرستی یا تشدد کی ترویج پر مبنی ہو، تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے جب کہ دوسری صورت میں اس کی آزادیء اظہار کے حق کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کا یہ تیسرا دورِ حکومت تھا، مگر اس دوران شہری آزادیوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا اور وہ کسی بھی صورت ہمیں بولتے دکھائی نہ دیے۔ کئی مذہبی افراد کو بغیر مقدمے، بغیر ایف آئی آر، بغیر جرم بتائے، لاپتا کیا جاتا رہا اور اس غیرقانونی کام پر قوم سوئی رہی اور سول سوسائٹی ’مذہبی افراد‘ کی گم شدگیوں پر شادمانی کا اظہار کرتی رہی، ڈرون حملوں پر جشن مناتی رہی اور لاتعلق رہی، تو نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ہر وہ آواز جو جمہوریت، انسانی حقوق، شہری آزادی یا اقلتیوں کے معاملات پر اٹھی، اسے یا تو خاموش کر دیا گیا یا لاپتا کر دیا گیا اور یا پھر ختم کر دیا گیا۔ پچھلے قریب پانچ برسوں سے حکومت نواز شریف صاحب کی تھی، جن میں سے چار برس سے زائد عرصے نواز شریف مسند وزارت عظمیٰ پر فائز رہے، اس دوران نواز شریف صاحب کی جانب سے کبھی ایک جملہ ان لاپتا افراد کے لیے نہیں کہا گیا، کبھی ایک بار ملک میں قانون کی بالادستی پر بات نہیں کی گئی، کبھی ایک بار یہ نہیں کہا گیا کہ کسی ریاستی ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملک کے کسی بھی شہری کو بغیر مقدمہ درج کیے حراست میں لیا جاے ادھر پچھلے دور حکومت میں عدلیہ کے ذریعے پیپلز پارٹی کو مسلسل ’سبق سکھانے‘ کی روش میں بھی نواز شریف صاحب پیش پیش رہے۔اب اگر دیگر سیاست دان اس پر جشن بنارہے ہیں تو کل اپ بھی کئی یہاں نہ ہوں جہاں آج وہ ہیں اس وقت ضرورے اس عمل کی ہے کئی کسی بھی طرع کی رٹ لگانے کے بجاے ہر اس اقدام کی سخت مزمت کی جاے جو ملک میں دستور اور قانون کا راج اور دستور میں بھی جہاں کئی شہریوں کے تحفظات ہوں شہری حقوق کی اذادی میں کمی محسوس ہو سیاست دان مل جل کر حل کریں یہی راستہ پاکستان کو مہذب معاشرہ اور جمہوری ریاست بنا پاے گا
ہمارے ملکمیں غیرجمہوری اور غیردستوری رویوں اور روایتوں کو درست قرار دینے کی ایک خصوصی تاریخ ہے۔ چوں کہ ماضی سب کا سب کے سامنے ہوتا ہے، اس لیے نہایت آسان سا معاملہ ہے کہ کسی بھی غیرجمہوری روایت یا راستے کو مکافاتِ عمل قرار دے کر خاموشی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جایا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز شریف کی ان تمام تر تقاریر کو نشر کرنے سے روک دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ چوں کہ لائیو کوریج میں نشریاتی ادارے کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا راہ نما کیا کہنے والا ہے، اس لیے مسلم لیگ کے قریب تمام ہی رہنماؤں کی لائیو کوریج ختم ۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو چند ہی ماہ رہ گئے ہیں، یہ پابندی ان انتخابات کی شفافیت پر کئی طرح کے سوالات اٹھا رہی ہے۔ اس سے پہلے کے عدالتی احکامات بھی واضح طور پر میزان کا پلڑا ایک طرف جھکاتے ملتے ہیں۔ نواز شریف صاحب اور مسلم لیگ نواز کا اپنا ماضی خود ایسا نہیں ہے کہ اسے کوئی مثالیہ بنا کر پیش کیا جا سکے۔ گیلانی صاحب کے خلاف 62 اور 63 کے تحت مقدمے کا معاملہ تھا، تو نواز شریف خود کالا کوٹ پہنچ کر سپریم کورٹ کے چکر لگاتے ملتے تھے اور وہ تب تک سکون سے نہ بیٹھے جب تک گیلانی کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ نہیں کر دیا۔ ادھر الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی عائد کی تو اس پر بھی نواز شریف نہایت واضح موقف کے ساتھ عدالتی فیصلے کی حمایت میں کھڑے رہے۔
ادھر ایم کیو ایم کے لوگ، جو الطاف حسین کی تقریر پر پابندی کے غصے کا شکار تھے، آج نواز شریف پر پابندی کو مکافات عمل کہہ کر شاداں ملتے ہیں۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف جشن مناتی اور عدالتی فیصلوں کو ’نیا پاکستان‘ قرار دے کر بھنگڑے ڈال رہی ہے کہ میدان صاف ہوا۔ اس پورے معاملے میں ایک اور بھیانک اور گھٹیا روایت قائم ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی شخص کی آزادیء اظہار رائے کو محدود کر دیا جائے اور چوں کہ محدود کرنے والا ادارہ وہ ہے، جسے شہری آزادی کا تحفظ کرنا ہے، اس لیے پوچھنے والا کون ہو گا؟ ملک میں لوگ فوج اور عدلیہ کےلیے اچھی زبان تک استعمال نہیں کر رہے آخر یہ سب نوبت اتی کیوں ہے
ملک میں اس سے قبل مارشل لا کے ادوار میں آمریت کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ کوئی میڈیا ہاؤس، کوئی صحافی یا کوئی قلم کار کھل کر اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے۔ ان ادوار میں بھی بدقسمتی سے ہماری عدلیہ کس کی گود میں نظر آتی ہے۔ غیرجمہوری اور غیردستوری اقدامات کو عدلیہ نے پی سی او کے تحت حلف لے کر نہ صرف ’نظریہ ضرورت‘ کہہ کر درست اور جائز قرار دیا بلکہ ایسی روایتیں قائم کر دیں، جو اس ملک کی تاریخ میں ہمیشہ عدلیہ کا تعاقب کرتی رہیں گی۔سیاست دانوں نے پارلیمان میں پہنچ کر ایک آمر کی بنائی ہوئی صادق اور امین کی شق کو آئین کا حصہ بنایا اور کبھی نہیں سوچا کہ یہ کسی بھی شخص کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادیء اظہار رائے کی ضمانت دیتے ہوئے ساتھ میں یہ لاحقے بھی شامل کر دیے گئے کہ ملک کی ’سلامتی‘ یا ’دفاع‘ کے معاملات پر اس کی آزادی محدود ہو گی اور وہ ایسا بھی کچھ نہیں کہہ سکتا جو ’توہین عدالت‘ کے زمرے میں آتا ہو۔ ان آرٹیکلز کی تشریح کا حق دستور چوں کہ عدلیہ کو تفویض کرتا ہے، اس لیے یہ وہ طے کرے گی کہ کون سی چیز توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں۔ یعنی اب حالات یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عدالتی فیصلے کو درست نہیں سمجھتا اور اس پر تنقید کرتا ہے، تو وہ توہین عدالت کی زد پر ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ملک کی دفاعی اور سلامتی کی پالیسیوں کو نادرست سمجھتا ہو، تو سلامتی کے ادارے اس کا تعین کیا کریں گے۔ یعنی دودھ کی حفاظت کی ذمہ داری بلی ۔دنیا کے ہر مہذب ملک میں کوئی بھی شہری ملک کی کسی بھی پالیسی، کسی بھی رہ نما، کسی بھی ادارے اور کسی بھی تنظیم پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ رائے نفرت انگیزی، نسل پرستی یا تشدد کی ترویج پر مبنی ہو، تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے جب کہ دوسری صورت میں اس کی آزادیء اظہار کے حق کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کا یہ تیسرا دورِ حکومت تھا، مگر اس دوران شہری آزادیوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا اور وہ کسی بھی صورت ہمیں بولتے دکھائی نہ دیے۔ کئی مذہبی افراد کو بغیر مقدمے، بغیر ایف آئی آر، بغیر جرم بتائے، لاپتا کیا جاتا رہا اور اس غیرقانونی کام پر قوم سوئی رہی اور سول سوسائٹی ’مذہبی افراد‘ کی گم شدگیوں پر شادمانی کا اظہار کرتی رہی، ڈرون حملوں پر جشن مناتی رہی اور لاتعلق رہی، تو نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ہر وہ آواز جو جمہوریت، انسانی حقوق، شہری آزادی یا اقلتیوں کے معاملات پر اٹھی، اسے یا تو خاموش کر دیا گیا یا لاپتا کر دیا گیا اور یا پھر ختم کر دیا گیا۔ پچھلے قریب پانچ برسوں سے حکومت نواز شریف صاحب کی تھی، جن میں سے چار برس سے زائد عرصے نواز شریف مسند وزارت عظمیٰ پر فائز رہے، اس دوران نواز شریف صاحب کی جانب سے کبھی ایک جملہ ان لاپتا افراد کے لیے نہیں کہا گیا، کبھی ایک بار ملک میں قانون کی بالادستی پر بات نہیں کی گئی، کبھی ایک بار یہ نہیں کہا گیا کہ کسی ریاستی ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملک کے کسی بھی شہری کو بغیر مقدمہ درج کیے حراست میں لیا جاے ادھر پچھلے دور حکومت میں عدلیہ کے ذریعے پیپلز پارٹی کو مسلسل ’سبق سکھانے‘ کی روش میں بھی نواز شریف صاحب پیش پیش رہے۔اب اگر دیگر سیاست دان اس پر جشن بنارہے ہیں تو کل اپ بھی کئی یہاں نہ ہوں جہاں آج وہ ہیں اس وقت ضرورے اس عمل کی ہے کئی کسی بھی طرع کی رٹ لگانے کے بجاے ہر اس اقدام کی سخت مزمت کی جاے جو ملک میں دستور اور قانون کا راج اور دستور میں بھی جہاں کئی شہریوں کے تحفظات ہوں شہری حقوق کی اذادی میں کمی محسوس ہو سیاست دان مل جل کر حل کریں یہی راستہ پاکستان کو مہذب معاشرہ اور جمہوری ریاست بنا پاے گا

No comments