گمشدہ افراد کا المیہ اور پختون تحفظ مومنٹ
(محمد ارشد خان)
======================
اپنے ان باکس میں چند معقول اور سنجیدہ پختون اور قبائلی عزیزوں جنمیں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں کے شکووں کے جواب میں یہ تفصیلی وضاحت انگریزی یا پشتو کے بجاۓ اردو میں لکھ رہا ہوں وگرنہ قوم پرستی کا دعوا رکھنے والے بازاری گل مرجانوں کو جواب دینے کیلئے انکی سطح پر آکر تمام انسانی، اسلامی اور پختون روایات کا گلہ گونٹنا پڑتا ہے- تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ کوئی بھی تنقید کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ مسنگ پرسنز (گمشدہ افراد) کا مسلہ ایک انسانی المیہ ہے- جو کہ دہشتگردی کے خلاف ہمارے خطے پر امریکا کے مسلط کردہ ناپاک اور شیطانی جنگ کا سب سے کربناک شاخسانہ ہے- آئینی اور قانونی موشگافیوں میں پڑے بغیر اس بات سے انکار نہیں جاسکتا کہ ہمارے معاشرے میں کسی خاندان کو اپنے ناکردہ گناہوں کی اس سے بڑی سزا نہیں دی جاسکتی کہ اسکے کسی فرد کو بغیر کوئی وجہ بتاۓ یا ملاقات کی سہولت کے گمشدہ کیا جاۓ چاہے وجہ اور منطق جو بھی ہو- اگر ایک طرف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تمام مسنگ لوگ نہ تو بیگناہ ہیں اور نہ ہی سب کے سب خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی افراد تمام انسانی قدروں اور جنگی اصولوں سے آزاد ایک بے چہرہ اور بے نام سفاک دشمن کے خلاف بہت حد تک کامیاب اس قومی جنگ میں واقعی خفیہ اداروں کی جانب نے اٹھاۓ جانے کے بعد غائب ہوے ہیں جن میں کئی بیگناہ بھی غلط اطلاعات کی بنیاد پر نشانہ بنے یا پھر کئی گناہگار عدالتی معیار کا ثبوت نہ ہونے کے وجہ پیش نہیں کے گئے جس کے وجوہات کا تدارک بہرحال ضروری ہے- ہمارے سیکورٹی نظام میں کسی گوانتانو بے اور افغانستان کے بگرام جیسے مراکز کی گنجائش نہ سہی، کوئی نہ کوئی قابل عمل حل تو نکالنا ہی ہوگا کیونکہ کوئی ریاستی مفاد اپنے شہریوں کے انسانی حقوق سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ورنہ سوویت یونین جیسا سپر پاور ہوکر بھی ریاست اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتا ہے- ان حقائق کے باوجود پی ٹی ایم جیسے ڈراموں پر تنقید یا انکے قیادت گھٹیا نعروں کی پرزور مخالفت کی گنجائش یا ضرورت اسلئے ہے کہ انکا کوئی براہراست تعلق ایسے مسائل کے حل سے نہیں چاہے یہی مسائل ایسے ڈراموں کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہو- پی ٹی ایم تو خطے پرعالمی قوتوں کے مسلط کردہ اس غلیظ جنگ اور اسکے نتیجے میں پاکستانی ریاست کی غلطیوں کا نشانہ بننے والے پشتونوں یا دوسرے متاثرین کی آواز بننے کے بجاۓ افغانستان کی کٹ پتلی حکمران اشرافیہ اور پاکستان مخالفت دوسرے شکست خوردہ اندرونی اور بیرونی قوتوں کی آواز یا آخری امید لگتی ہے جسکا ثبوت انکا جھوٹا سیاسی بیانیہ اور اسکی قیادت کی گھٹیا اور فسادی نعرہ بازی کے علاوہ اسکے اندرونی اور بین الاقوامی حمایتی ہیں- فیس بک سے تاریخ اور حالات حاضرہ سیکھنے والے نیم خواندہ یہ تک نہیں جانتے کہ اپنے چند ہزار بد گفتار اور جاہل حمایتیوں کی نظر میں "کروڑوں پختونوں کا لیڈر" منظور پشتون جو اپنے فاٹا کی حالیہ تاریخ کے بارے بھی میں اپنی کم علمی یا پھر کسی کے بہکاوے میں آکر سفید جھوٹ بولتا ہے کوئی پہلا شخص نہیں جنہوں نے لاپتہ افراد کے معاملے پر آواز اٹھائی ہو- مردان خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کی سیکورٹی اداروں کی تحویل میں "گمشدہ" اپنے شوہر راولپنڈی کے مسعود جنجوعہ کی رہائی یا پھر عدالت میں پیشی کیلئے ٢٠٠٥ سے جاری ١٣ سالہ قانونی جدوجہد کو تو ایمنسٹی انٹرنیشنل تک خراج تحسین پیش کرچکی ہے- انکے شوہر نہ تو پختون قبائلی تھے اور نہ ہی غریب بلکہ لیفٹننٹ کرنل رینک کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کے بیٹے، ایئر فورس کے دو افسروں کے بھائی اور ایک متمول پنجابی بزنس مین تھے اور ریاستی اداروں کے خفیہ حراستی مراکز میں انکے شوہر کی موجودگی کے ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کئے جاچکے ہیں- اسکے علاوہ انہوں نے یہ جنگ ایک عورت ہوکر اس وقت شوروع کی جب کہ امریکہ کی پالیسی وجہ سے نہ تو کوئی وائس آف امریکہ ڈیوہ ریڈیو انکی تحریک کا ترجمان بن سکتا تھا نہ ہی کوئی مشال ریڈیو بلکہ ٢٠٠٨ میں آخری لمحات میں بغیر کوئی وجہ بتاۓ امریکی سفارتخانے نے انکا ویزہ کینسل کرکے انکے امریکہ میں داخلہ تک روک دیا اور نہ ہی کسی افغانی پارلیمنٹ کے ارکان "پختونوں کے حقوق" کے نام پر انکا مخصوص حجاب پہن کر انکے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کیلئے موجود تھے - ظاہری طور پر"مذہبی" ہونے کی وجہ سے نہ ہی آج تک سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف اپنے گالم گلوچ اور غلیظ قسم کے پروپگنڈے کے لیے ممتاز دیسی لبرل اور نام نہاد پختون قوم پرست فورمز نے بھی انکی حمایت میں آواز نہیں اٹھائی جبکہ انڈین میڈیا کیلئے بھی وہ اس "دلچسپی" کی وجہ نہیں ہوسکتی تھی جس دلچسپی کے مستحق پی ٹی ایم کے نئے "سرحدی گاندھی" ہوسکتے ہیں- سیاسی حساسیت کی وجہ سے چند ہزار حامیوں کی بنیاد پر پختون قوم کی نمائندگی کرنے کا مضحکہ خیز دعوا کرنے والے پی ٹی ایم کے کسی رہنما کو آج تک کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا جبکہ اس خاتون کو اپنے دھرنوں میں اپنے بچوں سمیت مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا اور بوڑھوں بچوں اور عورتوں سمیت گمشدہ افراد کے ٤٠ لواحقین کے ساتھ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑھی - بس فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی شوہر کی جبری گمشدگی کے جبر کے تحت شوروع کردہ تحریک کو کسی پاکستان دشمن بیرونی بیانیے اور جھوٹے نعروں کی بنیاد پر اپنی باطل سیاست کی آخری سانسیں لینے والے سیاسی مداریوں اور مسخروں کا پتلی تماشہ نہیں بنایا- بلکہ ٥٠٠ سے زیادہ مسنگ پرسنز کے عزیز و اقارب کے ساتھ ٧٥ دن کا شب و روز دھرنا دیا اور اپنے ملک کے اداروں یا نظام کے خلاف اپنے احتجاج کو قومی عدلیہ بحالی تحریک کا موثر حصہ بنا کر ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کا ادارہ بنایا جو کہ تھائی لینڈ میں معمولی جرائم میں عمر قید کاٹنے والے ٢٢ پاکستانیوں کی رہائی کا ذریعہ بنا اور اب پاکستان میں ٥٧ غیر ملکی قیدیوں اور چین میں قید ٣٠٠ پاکستانیوں کی رہائی کیلئے کام کر رہا ہے جبکہ انکا اپنا شوہر ابھی تک لاپتہ ہے اور خفیہ ادارے کے دعوے کے مطابق وہ جنوبی وزیرستان میں مارا گیا ہے - اس کو سادہ زبان میں ایک محب وطن اور ذمہ دار شہری کی انسانی حقوق کیلئے قانونی اور آئینی جدوجہد کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ٹی ایم کی "پختون قوم" کی نمائندگی کی بھڑک مارنے والی قیادت نے اپنی عملی جدوجہد پاکستانی فوج اور "پنجاب" کے خلاف سندھ پولیس کے ایک کرپٹ سیاسی بھتہ خور افسر کے ہاتھوں نقیب الله کی شہادت سے شوروع کی جو کہ گرفتار ہوچکا ہے اور افغانستان میں لاکھوں پختونوں کے قاتل ڈاکٹر نجیب اللہ کا افغان طالبان کے ہاتوں قتل کے حساب کے علاوہ پاکستان فوج سے ٧٠ سالوں کا حساب مانگ رہی ہے جبکہ فوج تو٢٠٠٥ سے پہلے قبائلی علاقے میں گئی تک نہیں لیکن بہانہ ہے کچھ ظاہری طور جائز آئینی مطالبات-
======================
اپنے ان باکس میں چند معقول اور سنجیدہ پختون اور قبائلی عزیزوں جنمیں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں کے شکووں کے جواب میں یہ تفصیلی وضاحت انگریزی یا پشتو کے بجاۓ اردو میں لکھ رہا ہوں وگرنہ قوم پرستی کا دعوا رکھنے والے بازاری گل مرجانوں کو جواب دینے کیلئے انکی سطح پر آکر تمام انسانی، اسلامی اور پختون روایات کا گلہ گونٹنا پڑتا ہے- تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ کوئی بھی تنقید کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ مسنگ پرسنز (گمشدہ افراد) کا مسلہ ایک انسانی المیہ ہے- جو کہ دہشتگردی کے خلاف ہمارے خطے پر امریکا کے مسلط کردہ ناپاک اور شیطانی جنگ کا سب سے کربناک شاخسانہ ہے- آئینی اور قانونی موشگافیوں میں پڑے بغیر اس بات سے انکار نہیں جاسکتا کہ ہمارے معاشرے میں کسی خاندان کو اپنے ناکردہ گناہوں کی اس سے بڑی سزا نہیں دی جاسکتی کہ اسکے کسی فرد کو بغیر کوئی وجہ بتاۓ یا ملاقات کی سہولت کے گمشدہ کیا جاۓ چاہے وجہ اور منطق جو بھی ہو- اگر ایک طرف یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تمام مسنگ لوگ نہ تو بیگناہ ہیں اور نہ ہی سب کے سب خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی افراد تمام انسانی قدروں اور جنگی اصولوں سے آزاد ایک بے چہرہ اور بے نام سفاک دشمن کے خلاف بہت حد تک کامیاب اس قومی جنگ میں واقعی خفیہ اداروں کی جانب نے اٹھاۓ جانے کے بعد غائب ہوے ہیں جن میں کئی بیگناہ بھی غلط اطلاعات کی بنیاد پر نشانہ بنے یا پھر کئی گناہگار عدالتی معیار کا ثبوت نہ ہونے کے وجہ پیش نہیں کے گئے جس کے وجوہات کا تدارک بہرحال ضروری ہے- ہمارے سیکورٹی نظام میں کسی گوانتانو بے اور افغانستان کے بگرام جیسے مراکز کی گنجائش نہ سہی، کوئی نہ کوئی قابل عمل حل تو نکالنا ہی ہوگا کیونکہ کوئی ریاستی مفاد اپنے شہریوں کے انسانی حقوق سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ورنہ سوویت یونین جیسا سپر پاور ہوکر بھی ریاست اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتا ہے- ان حقائق کے باوجود پی ٹی ایم جیسے ڈراموں پر تنقید یا انکے قیادت گھٹیا نعروں کی پرزور مخالفت کی گنجائش یا ضرورت اسلئے ہے کہ انکا کوئی براہراست تعلق ایسے مسائل کے حل سے نہیں چاہے یہی مسائل ایسے ڈراموں کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہو- پی ٹی ایم تو خطے پرعالمی قوتوں کے مسلط کردہ اس غلیظ جنگ اور اسکے نتیجے میں پاکستانی ریاست کی غلطیوں کا نشانہ بننے والے پشتونوں یا دوسرے متاثرین کی آواز بننے کے بجاۓ افغانستان کی کٹ پتلی حکمران اشرافیہ اور پاکستان مخالفت دوسرے شکست خوردہ اندرونی اور بیرونی قوتوں کی آواز یا آخری امید لگتی ہے جسکا ثبوت انکا جھوٹا سیاسی بیانیہ اور اسکی قیادت کی گھٹیا اور فسادی نعرہ بازی کے علاوہ اسکے اندرونی اور بین الاقوامی حمایتی ہیں- فیس بک سے تاریخ اور حالات حاضرہ سیکھنے والے نیم خواندہ یہ تک نہیں جانتے کہ اپنے چند ہزار بد گفتار اور جاہل حمایتیوں کی نظر میں "کروڑوں پختونوں کا لیڈر" منظور پشتون جو اپنے فاٹا کی حالیہ تاریخ کے بارے بھی میں اپنی کم علمی یا پھر کسی کے بہکاوے میں آکر سفید جھوٹ بولتا ہے کوئی پہلا شخص نہیں جنہوں نے لاپتہ افراد کے معاملے پر آواز اٹھائی ہو- مردان خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کی سیکورٹی اداروں کی تحویل میں "گمشدہ" اپنے شوہر راولپنڈی کے مسعود جنجوعہ کی رہائی یا پھر عدالت میں پیشی کیلئے ٢٠٠٥ سے جاری ١٣ سالہ قانونی جدوجہد کو تو ایمنسٹی انٹرنیشنل تک خراج تحسین پیش کرچکی ہے- انکے شوہر نہ تو پختون قبائلی تھے اور نہ ہی غریب بلکہ لیفٹننٹ کرنل رینک کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کے بیٹے، ایئر فورس کے دو افسروں کے بھائی اور ایک متمول پنجابی بزنس مین تھے اور ریاستی اداروں کے خفیہ حراستی مراکز میں انکے شوہر کی موجودگی کے ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کئے جاچکے ہیں- اسکے علاوہ انہوں نے یہ جنگ ایک عورت ہوکر اس وقت شوروع کی جب کہ امریکہ کی پالیسی وجہ سے نہ تو کوئی وائس آف امریکہ ڈیوہ ریڈیو انکی تحریک کا ترجمان بن سکتا تھا نہ ہی کوئی مشال ریڈیو بلکہ ٢٠٠٨ میں آخری لمحات میں بغیر کوئی وجہ بتاۓ امریکی سفارتخانے نے انکا ویزہ کینسل کرکے انکے امریکہ میں داخلہ تک روک دیا اور نہ ہی کسی افغانی پارلیمنٹ کے ارکان "پختونوں کے حقوق" کے نام پر انکا مخصوص حجاب پہن کر انکے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کیلئے موجود تھے - ظاہری طور پر"مذہبی" ہونے کی وجہ سے نہ ہی آج تک سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف اپنے گالم گلوچ اور غلیظ قسم کے پروپگنڈے کے لیے ممتاز دیسی لبرل اور نام نہاد پختون قوم پرست فورمز نے بھی انکی حمایت میں آواز نہیں اٹھائی جبکہ انڈین میڈیا کیلئے بھی وہ اس "دلچسپی" کی وجہ نہیں ہوسکتی تھی جس دلچسپی کے مستحق پی ٹی ایم کے نئے "سرحدی گاندھی" ہوسکتے ہیں- سیاسی حساسیت کی وجہ سے چند ہزار حامیوں کی بنیاد پر پختون قوم کی نمائندگی کرنے کا مضحکہ خیز دعوا کرنے والے پی ٹی ایم کے کسی رہنما کو آج تک کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا جبکہ اس خاتون کو اپنے دھرنوں میں اپنے بچوں سمیت مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا اور بوڑھوں بچوں اور عورتوں سمیت گمشدہ افراد کے ٤٠ لواحقین کے ساتھ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑھی - بس فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی شوہر کی جبری گمشدگی کے جبر کے تحت شوروع کردہ تحریک کو کسی پاکستان دشمن بیرونی بیانیے اور جھوٹے نعروں کی بنیاد پر اپنی باطل سیاست کی آخری سانسیں لینے والے سیاسی مداریوں اور مسخروں کا پتلی تماشہ نہیں بنایا- بلکہ ٥٠٠ سے زیادہ مسنگ پرسنز کے عزیز و اقارب کے ساتھ ٧٥ دن کا شب و روز دھرنا دیا اور اپنے ملک کے اداروں یا نظام کے خلاف اپنے احتجاج کو قومی عدلیہ بحالی تحریک کا موثر حصہ بنا کر ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کا ادارہ بنایا جو کہ تھائی لینڈ میں معمولی جرائم میں عمر قید کاٹنے والے ٢٢ پاکستانیوں کی رہائی کا ذریعہ بنا اور اب پاکستان میں ٥٧ غیر ملکی قیدیوں اور چین میں قید ٣٠٠ پاکستانیوں کی رہائی کیلئے کام کر رہا ہے جبکہ انکا اپنا شوہر ابھی تک لاپتہ ہے اور خفیہ ادارے کے دعوے کے مطابق وہ جنوبی وزیرستان میں مارا گیا ہے - اس کو سادہ زبان میں ایک محب وطن اور ذمہ دار شہری کی انسانی حقوق کیلئے قانونی اور آئینی جدوجہد کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ٹی ایم کی "پختون قوم" کی نمائندگی کی بھڑک مارنے والی قیادت نے اپنی عملی جدوجہد پاکستانی فوج اور "پنجاب" کے خلاف سندھ پولیس کے ایک کرپٹ سیاسی بھتہ خور افسر کے ہاتھوں نقیب الله کی شہادت سے شوروع کی جو کہ گرفتار ہوچکا ہے اور افغانستان میں لاکھوں پختونوں کے قاتل ڈاکٹر نجیب اللہ کا افغان طالبان کے ہاتوں قتل کے حساب کے علاوہ پاکستان فوج سے ٧٠ سالوں کا حساب مانگ رہی ہے جبکہ فوج تو٢٠٠٥ سے پہلے قبائلی علاقے میں گئی تک نہیں لیکن بہانہ ہے کچھ ظاہری طور جائز آئینی مطالبات-
..اب اگر میرے عمومی طور باشعور پختون قوم کے کچھ افراد کو یہ فرق سمجھ نہیں آتا یا سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر میرے آباؤ اجداد کا عظیم لیکن بدقسمت خطہ عالمی طاقتوں کے ایک اور گندے کھیل کیلئے تیار ہوجاۓ چاہے منظور پشتیں انکا الہ کار ہو یا پھر اپنے طور پر ایک مخلص کارکن کیونکہ انگریزی کے ایک محاورہ کا مفہوم ہے کہ جہنم ایک راستہ بھی اچھے ارادوں کے اینٹوں سے بنا ہوا ہے- اس گندے کھیل میں خون پھر کسی اور کیلئے پاکستانی پشتون کا بہے گا جواب میں وہ اپنے ملک کے لوگوں کا خون بہائینگے جبکہ مقبوضہ افغانستان کے پارلیمان کے مسخرے اپنے ملک میں قابض افواج اور طالبان کی خونریزی کو نظرانداز کرتے ہوۓ منظور پشتیں کی ٹوپی پہن کر قراردادیں پاس کریںگے، دنیا تماشا دیکھے گی، ہندوستان کو کچھ سکون ہوگا اور گلمرجان کو فیس بک پر فوج، گل خان اور پنجاب وغیرہ کے متعلق گلفشانی کیلئے کچھ اور مواد ملے گا- الله الله خیر سلہ!

No comments