پختونوں کے ساتھ یکجہتی یا سازش ؟
( غلام حسین محب )
اسلام آباد میں دھرنااختتام پذیرہوچکا، کتنی کامیابی ملی کتنی ناکامی کا سامنا ہوا یہ سوالات اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نقیب اللہ محسود کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف پختون پہلی بار ایک پیج پر نظر آئے اور دنیا کے ہراُس شہر سے یکجہتی کی خبریں آتی رہیں اورجلسے جلوس اور مظاہرے ہوتے رہے یہ اچھی بات ہے کہ دنیا کے کسی بھی جگہ پر اگر کسی کے ساتھ ظلم ہو رہا ہوتو اُس کا ساتھ دینا چاہیے دنیا بھر میں اس مقصد کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ جب عام لوگ کسی ظلم کے خلاف اکٹھے ہوں کیونکہ اس طرح عدالتیں اور اعلیٰ ادارے نوٹس لیتے ہیں اور کسی حد عوام مطمئن بھی ہوجاتے ہیں۔پختون اکثر اپنی بدقسمتی کا رونا روتے آئے ہیں کہ صدیوں سے وہ مظلوم ہیں اور ہمیشہ باہر کے حملہ آوروں نے اُن کی بے اتفاقی اور جہالت کا فائدہ اٹھایا ہے۔پختونوں کے ساتھ پنجاب اور سندھ میں امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے اس سے انکارممکن نہیں لیکن اس حوالے سے اتنے آگے جانا کہ آپ ریاست کے خلاف ہو جائیں کبھی بھی ہمارے فائدے میں نہیں ہوگا۔اور اس قسم کی خبریں اسلام آباددھرنیکے دوران سامنے آئیں کہ کھلم کھلا پاکستان کے خلاف تقریریں کی گئیں اور یہی موقع ہوتا ہے کہ دشمن فائدہ اٹھائے۔ ہم سب نے دیکھا کہ افغانستان اس حوالے سے سب سے آگے رہا اور اشرف غنی نے باقاعدہ بیان جاری کیا کہ ہم پختونوں کے اس حتجاج میں اُن کے ساتھ ہیں۔اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب بھارت،اسرائیل اور امریکہ جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے تاک میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔اس کا ثبوت افغانستان میں ہونے والے مظاہرے ہیں۔جلال آباد،بلخ،کابل اور کئی دیگر ولایتوں میں ہونے والے مظاہروں میں کھل کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ان مظاہروں میں پاکستان کے خلاف وہ باتیں کی گئیں جو ہمیشہ بھارت کرتا آیا ہے یعنی بھارتی زبان استعمال کی گئی۔پاکستان کے خلاف اس وقت تمام قوتیں متحد ہوچکے ہیں جس کا ثبوت انٹرنیشنل میڈیاکا زہریلا پروپیگنڈا ہے۔امریکی ،یورپی اور بھارتی میڈیا پر پختونوں کے ساتھ جعلی اظہار ہمدردی اوراُن کو شاباش دیکر پاکستان کے خلاف ورغلانے کے لیے بھرپور پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔حالانکہ افغانستان میں پختونوں کا یہ حال ہے کہ وہ قربان ہوتے رہے ہیں امریکی اور اتحادی افواج جنازوں اور شادی تقریبات پر بمباری کرکے اب تک سینکڑوں عام شہریوں کو نشانہ بنا چکی ہے۔شام میں امریکی،روسی اور اسرائیلی طاقت وہان کے عوام کے خلاف استعمال ہورہا ہے جس میں اب تک لاکھوں بچے،بوڑھے ،جوان اور خواتین لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔لیکن نہ کسی انسانی حقوق تنظیم،یو این او اور نہ انٹر نیشنل میڈیا نے اس کو ہوا دی جس سے اُن کی نیتوں کا صاف پتہ چلتا ہے۔کیا دنیا میں صرف پختون مظلوم ہیں ؟ یمن میں ایک پوری نسل کے خلاف روزانہ بمباری اور حملے جاری ہیں لیکن کوئی واویلا نہیں ،کوئی اظہار ہمدردی نہیں۔کشمیر میں باقاعدہ ریاستی دہشت گردی جاری ہے لیکن بھارت کو افغانستان کے پختونوں کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ ہے کیونکہ افغانستان، پاکستان کے خلاف بھارت کے لیے ایک اچھا مورچہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تو اب ہم اگر پختونوں کے ساتھ یکجہتی کے نام پر اپنی ریاست کے خلاف ہوجائیں اور اگر خدا نخواستہ پاکستان بھی عراق اور افغانستان کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تو یہاں کے پختون کہاں جائیں گے؟ کیونکہ افغانستان تو اپنے تیس لاکھ مہاجرین کو لینے کے لیے تیار نہیں اور مستقبل میں دوردور تک افغانستان کا استحکام نظر نہیں آرہا۔اور یہ امریکہ کی ’’دوستی‘‘ اور’’امن پسندی‘‘ کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں بھی امن و امان قائم کرنے کے نام پر گیاوہاں آگ اور خون کے دریا بہا کر اور اُس ملک کو کھنڈر بنا کر،بے یارو مددگارچھوڑدیا۔یہی امریکہ کا اصل چہرہ اورتاریخ ہے۔ پختونوں کے احتجاج کی موجودہ لہر نے زور اُس وقت پکڑا جب باجوڑ سے تعلق رکھنے والا ایک اور نوجوان طالب احمد شاہ کو بھی کراچی میں اغوا کرکے قتل کردیا گیا۔
مگر نقیب اللہ محسود اور احمد شاہ کیس میں فرق یہ ہے کہ نقیب اللہ کا قتل معلوم ہے ،راؤ انورنے اس طرح کے چارسوچوالیس قتل کیے جنہیں جعلی مقابلے ظاہر کیے گئے مگر احمدشاہ نامی نوجوان کا قتل نامعلوم افراد کے دھند میں گُم ہوچکا جبکہ پختون اُسی زور وشور سے چیخ رہے ہیں حالانکہ میرے خیال میں اب اَور بھی اس طرح کے اغواکے بعد قتل سامنے آئیں گے۔یعنی دشمن موقع سے فائدہ اٹھا کرپختونوں کے غم وغصے کو بڑھا ئے گاتاکہ ملک میں افراتفری پھیلے اور عدم استحکام پیدا ہو۔اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نقیب اللہ کی شہادت کے بعد پختونوں کا غم وغصہ اور جذبات دیکھ کرملک دشمن عناصر پولیس یا سیکیورٹی کے نام پر اس طرح کی واردات کریں گے تاکہ پختونوں کے اس احتجاج کو طول دیا جاسکے۔اس سے پہلے سب کو معلوم ہے کہ فرقہ واریت کو ہو ادینے کے سینکڑوں واقعات سامنے آچکے ہیں کبھی شیعہ، سُنی، کبھی مہاجر، پختون،اور کبھی پنجابی پختون کو لڑانے کی سازشیں کی گئیں۔افغانستان،بھارت، اسرائیل اور امریکہ سے ہوشیار رہنا ہوگاکہ وہ اس وقت متحد ہوچکے ہیں اور ہر محاذپر پاکستان کوشکست دینے پر لگے ہوئے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہامریکہ کا کوئی دوست نہیں اور دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا صرف امریکہ ہے۔جس کا ثبوت یہ ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے امریکہ آج بھی وہاں کیونکر موجود ہے اور سولہ سال میں اپنے نیٹو ساتھیوں کی مدد سے طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا ؟امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا روس کے خلاف جنگ کیا اورلاکھوں افغان مہاجر یں کو لا بسایا۔پھر طالبان حکومت کے خلاف راست دیا،ہر قسم تعاون کیا مگر امریکہ پھر بھی بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کا کہہ رہا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔بھارت افغانستان میں وہی کردار ادا کریگا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکے ورنہ ہندو کبھی پختون کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔۔۔
اسلام آباد میں دھرنااختتام پذیرہوچکا، کتنی کامیابی ملی کتنی ناکامی کا سامنا ہوا یہ سوالات اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نقیب اللہ محسود کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف پختون پہلی بار ایک پیج پر نظر آئے اور دنیا کے ہراُس شہر سے یکجہتی کی خبریں آتی رہیں اورجلسے جلوس اور مظاہرے ہوتے رہے یہ اچھی بات ہے کہ دنیا کے کسی بھی جگہ پر اگر کسی کے ساتھ ظلم ہو رہا ہوتو اُس کا ساتھ دینا چاہیے دنیا بھر میں اس مقصد کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ جب عام لوگ کسی ظلم کے خلاف اکٹھے ہوں کیونکہ اس طرح عدالتیں اور اعلیٰ ادارے نوٹس لیتے ہیں اور کسی حد عوام مطمئن بھی ہوجاتے ہیں۔پختون اکثر اپنی بدقسمتی کا رونا روتے آئے ہیں کہ صدیوں سے وہ مظلوم ہیں اور ہمیشہ باہر کے حملہ آوروں نے اُن کی بے اتفاقی اور جہالت کا فائدہ اٹھایا ہے۔پختونوں کے ساتھ پنجاب اور سندھ میں امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے اس سے انکارممکن نہیں لیکن اس حوالے سے اتنے آگے جانا کہ آپ ریاست کے خلاف ہو جائیں کبھی بھی ہمارے فائدے میں نہیں ہوگا۔اور اس قسم کی خبریں اسلام آباددھرنیکے دوران سامنے آئیں کہ کھلم کھلا پاکستان کے خلاف تقریریں کی گئیں اور یہی موقع ہوتا ہے کہ دشمن فائدہ اٹھائے۔ ہم سب نے دیکھا کہ افغانستان اس حوالے سے سب سے آگے رہا اور اشرف غنی نے باقاعدہ بیان جاری کیا کہ ہم پختونوں کے اس حتجاج میں اُن کے ساتھ ہیں۔اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب بھارت،اسرائیل اور امریکہ جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے تاک میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔اس کا ثبوت افغانستان میں ہونے والے مظاہرے ہیں۔جلال آباد،بلخ،کابل اور کئی دیگر ولایتوں میں ہونے والے مظاہروں میں کھل کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ان مظاہروں میں پاکستان کے خلاف وہ باتیں کی گئیں جو ہمیشہ بھارت کرتا آیا ہے یعنی بھارتی زبان استعمال کی گئی۔پاکستان کے خلاف اس وقت تمام قوتیں متحد ہوچکے ہیں جس کا ثبوت انٹرنیشنل میڈیاکا زہریلا پروپیگنڈا ہے۔امریکی ،یورپی اور بھارتی میڈیا پر پختونوں کے ساتھ جعلی اظہار ہمدردی اوراُن کو شاباش دیکر پاکستان کے خلاف ورغلانے کے لیے بھرپور پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔حالانکہ افغانستان میں پختونوں کا یہ حال ہے کہ وہ قربان ہوتے رہے ہیں امریکی اور اتحادی افواج جنازوں اور شادی تقریبات پر بمباری کرکے اب تک سینکڑوں عام شہریوں کو نشانہ بنا چکی ہے۔شام میں امریکی،روسی اور اسرائیلی طاقت وہان کے عوام کے خلاف استعمال ہورہا ہے جس میں اب تک لاکھوں بچے،بوڑھے ،جوان اور خواتین لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔لیکن نہ کسی انسانی حقوق تنظیم،یو این او اور نہ انٹر نیشنل میڈیا نے اس کو ہوا دی جس سے اُن کی نیتوں کا صاف پتہ چلتا ہے۔کیا دنیا میں صرف پختون مظلوم ہیں ؟ یمن میں ایک پوری نسل کے خلاف روزانہ بمباری اور حملے جاری ہیں لیکن کوئی واویلا نہیں ،کوئی اظہار ہمدردی نہیں۔کشمیر میں باقاعدہ ریاستی دہشت گردی جاری ہے لیکن بھارت کو افغانستان کے پختونوں کے ساتھ ’’ہمدردی‘‘ ہے کیونکہ افغانستان، پاکستان کے خلاف بھارت کے لیے ایک اچھا مورچہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تو اب ہم اگر پختونوں کے ساتھ یکجہتی کے نام پر اپنی ریاست کے خلاف ہوجائیں اور اگر خدا نخواستہ پاکستان بھی عراق اور افغانستان کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تو یہاں کے پختون کہاں جائیں گے؟ کیونکہ افغانستان تو اپنے تیس لاکھ مہاجرین کو لینے کے لیے تیار نہیں اور مستقبل میں دوردور تک افغانستان کا استحکام نظر نہیں آرہا۔اور یہ امریکہ کی ’’دوستی‘‘ اور’’امن پسندی‘‘ کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں بھی امن و امان قائم کرنے کے نام پر گیاوہاں آگ اور خون کے دریا بہا کر اور اُس ملک کو کھنڈر بنا کر،بے یارو مددگارچھوڑدیا۔یہی امریکہ کا اصل چہرہ اورتاریخ ہے۔ پختونوں کے احتجاج کی موجودہ لہر نے زور اُس وقت پکڑا جب باجوڑ سے تعلق رکھنے والا ایک اور نوجوان طالب احمد شاہ کو بھی کراچی میں اغوا کرکے قتل کردیا گیا۔
مگر نقیب اللہ محسود اور احمد شاہ کیس میں فرق یہ ہے کہ نقیب اللہ کا قتل معلوم ہے ،راؤ انورنے اس طرح کے چارسوچوالیس قتل کیے جنہیں جعلی مقابلے ظاہر کیے گئے مگر احمدشاہ نامی نوجوان کا قتل نامعلوم افراد کے دھند میں گُم ہوچکا جبکہ پختون اُسی زور وشور سے چیخ رہے ہیں حالانکہ میرے خیال میں اب اَور بھی اس طرح کے اغواکے بعد قتل سامنے آئیں گے۔یعنی دشمن موقع سے فائدہ اٹھا کرپختونوں کے غم وغصے کو بڑھا ئے گاتاکہ ملک میں افراتفری پھیلے اور عدم استحکام پیدا ہو۔اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نقیب اللہ کی شہادت کے بعد پختونوں کا غم وغصہ اور جذبات دیکھ کرملک دشمن عناصر پولیس یا سیکیورٹی کے نام پر اس طرح کی واردات کریں گے تاکہ پختونوں کے اس احتجاج کو طول دیا جاسکے۔اس سے پہلے سب کو معلوم ہے کہ فرقہ واریت کو ہو ادینے کے سینکڑوں واقعات سامنے آچکے ہیں کبھی شیعہ، سُنی، کبھی مہاجر، پختون،اور کبھی پنجابی پختون کو لڑانے کی سازشیں کی گئیں۔افغانستان،بھارت، اسرائیل اور امریکہ سے ہوشیار رہنا ہوگاکہ وہ اس وقت متحد ہوچکے ہیں اور ہر محاذپر پاکستان کوشکست دینے پر لگے ہوئے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہامریکہ کا کوئی دوست نہیں اور دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا صرف امریکہ ہے۔جس کا ثبوت یہ ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے امریکہ آج بھی وہاں کیونکر موجود ہے اور سولہ سال میں اپنے نیٹو ساتھیوں کی مدد سے طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا ؟امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا روس کے خلاف جنگ کیا اورلاکھوں افغان مہاجر یں کو لا بسایا۔پھر طالبان حکومت کے خلاف راست دیا،ہر قسم تعاون کیا مگر امریکہ پھر بھی بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کا کہہ رہا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔بھارت افغانستان میں وہی کردار ادا کریگا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکے ورنہ ہندو کبھی پختون کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔۔۔


No comments