Breaking News

قبائل کی غمخوار اپوزیشن کہاں گئی ؟




 ۔۔۔۔ (شمس مومند)
جب تک فاٹا اصلاحات بل پر حکومت اور جے یو آئی کا گٹھ جوڑ جاری تھا اپوزیشن کی باقی تمام پارٹیاں پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے قبائل کے غمخوار بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے نہ صرف جلسوں دھرنوں اور بیانات کے ذریعے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا تھا بلکہ قومی اسمبلی سے مسلسل بائیکاٹ نے اسمبلی کا چلنا ناممکن کردیا تھا۔۔۔۔ مگر بھلا ہو بلوچستان کی صورتحال کا۔۔۔۔ اس کی وجوہات فوائد و نقصانات کچھ بھی ہو، مگر ایک فائدہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے درمیان مفادات پر مبنی چار سالہ رفاقت میں دراڑ ڈال دی۔۔۔۔۔۔بلوچستان میں جے یو آئی نے مسلم لیگ ن کی بجائے ق کا ساتھ دیا ۔۔۔۔ جس کے بعد مسلم لیگ نے جواب آغزل کے طور پر فاٹا اصلاحات کے پچیس میں سے ایک نکتے کو قومی اسمبلی سے پاس کروادیا۔۔۔۔ یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی فاٹا تک توسیع کا بل قومی اسمبلی سے پاس کروادیا۔ اس سے حکومت نے بیک وقت ایک تیر سے دو نہیں تین نہیں بلکہ چار شکار کھیلے۔
1۔۔۔۔۔ مولانا فضل ا لرحمن کو باور کرایا کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی نہیں مفادات کا کاروبار ہوتا ہے اگر آپ بے وفائی کرسکتے ہیں تو ہم بھی اپنی مرضی کے مالک ہیں۔
2۔ تحریک انصاف جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ کیونکہ انھوں نے نہ صرف اسمبلی کا بائیکارٹ جاری رکھا ہوا تھا بلکہ جنوری کے بعد لانگ مارچ اور بھرپور احتجاج کی دھمکی بھی دے رکھی تھی۔۔۔۔
3۔ اصلاحات کے حامی قبائل کو امید دلائی کہ ہم فاٹا کی پختونخوا میں انضمام کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اصلاحات کے مخالفین کو بھی مایوس نہیں کیا ۔ کیونکہ اگر اصلاحات کے نفاذ کی رفتار یہ رہی تو انضمام کو پانچ نہیں پچیس سال درکار ہونگے۔۔
سب سے بڑی بات یہ کہ بال اپوزیشن کے کورٹ میں پھینک دی۔۔۔۔ یعنی سینیٹ سے اس بل کی منظوری حکومت کے لئے مشکل مگر اپوزیشن کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کیونکہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے اور چئیرمین سینیٹ رضاربانی اور خورشید شاہ خود فاٹا اصلاحات کے سب سے بڑے حامی ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ قومی اسمبلی سے بل کے پاس ہونے کو بیس دن ہونے کے باوجود اس غمخوار اپوزیشن کی تمام پارٹیاں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں۔۔۔۔۔۔ سینیٹ کے جاری اجلاس میں محترم رضاربانی نے اپنی سی کوشش کی کہ بل پر کار روائی کو آگے بڑھایا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر سینیٹرز کی عدم دلچسپی اور غیر حاضری کیوجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف پی ٹی آ ئی، جماعت اسلامی اور اے این پی واقعی قبائل سے مخلص ہیں وہ واقعی قبائل کے غم میں اصلاحات کے شوقین ہیں اگر ہاں تو پھر بیس دن گزرنے کے باوجود سینیٹ سے اس بل کی منظوری کیوں نہیں ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب رضاربانی اور خورشید شاہ صاحب سے بہتر کون دے سکتا ہے ۔۔۔۔
اگر سینیٹ کے جاری اجلاس میں اس بل کی منظوری نہیں دی گئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی طرح قبائل کے سروں پر سیاست سیاست کھیل رہی ہے کیونکہ یہی شاید موجودہ سینیٹ کا آخری اجلاس ہوگا۔۔۔ اگلے مہنیے تو باون سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئے چہرے آنے کے لئے ممبران اسمبلی کی منڈیا لگ چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments