میراثی کیا ہوتا ہے ؟
(تمہید..(فیروز افریدی
‘‘مضمون: نامعلوم’’
‘‘مضمون: نامعلوم’’
تهوڑی دیر پہلے موسیقی کے ایک بڑے استاذ کو میراثی پر لیکچر کرتے ہوئے سنا .جو میراثی کا غلط ترجمہ اور معنی بتا رہا تها.کہہ رہا تها کہ میں خاندانی طور پر راجپوت ہوں اور چونکہ ہمارے بزرگوں نے موسیقی کا پیشہ اختیار کیا لہذا اج همیں لوگ میراثی کہتے ہیں.
جو کہ برا لگتا ہے.
مزید میراثیت کا ثبوت اسے نے یہ دیا کہ میں کتنا بڑا ادمی ہوں کہ 35 سال سے امریکی یونیورسٹیوں میں موسیقی کا تعلیم دے رہا ہوں.لیکن پهر بهی لوگ تو چهوڑیں شوقیہ فنکار تک ہمیں میراثی کہتے ہیں .
جو کہ برا لگتا ہے.
مزید میراثیت کا ثبوت اسے نے یہ دیا کہ میں کتنا بڑا ادمی ہوں کہ 35 سال سے امریکی یونیورسٹیوں میں موسیقی کا تعلیم دے رہا ہوں.لیکن پهر بهی لوگ تو چهوڑیں شوقیہ فنکار تک ہمیں میراثی کہتے ہیں .
مجهے حیرت اس بات پر هوئی جب اس نے یہ کہا کہ میراثی مرثیہ سے نکلا ہے .
از روئے تجسس میں نے بهی تهوڑی سی ریسرچ کی تو مرثیہ کو عربی کا لفظ پایا جو کہ رثا سے نکلا ہے اور جس کی معنی ہے کسی مردے کی اوصاف و تعریف بیان کرنا.
مزید تلاش کیا تو میراثی پر پورا مضمون هاته ایا جو معلومات کے ساته ساته دلچسپی سے بهی خالی نہ تها.
ملاحظہ فرمائے کہ .
از روئے تجسس میں نے بهی تهوڑی سی ریسرچ کی تو مرثیہ کو عربی کا لفظ پایا جو کہ رثا سے نکلا ہے اور جس کی معنی ہے کسی مردے کی اوصاف و تعریف بیان کرنا.
مزید تلاش کیا تو میراثی پر پورا مضمون هاته ایا جو معلومات کے ساته ساته دلچسپی سے بهی خالی نہ تها.
ملاحظہ فرمائے کہ .
..................................................................................................................................
میراثی کیا ہوتا ہے ؟
میراثی اسے کہتے ہیں جسے میراث میں کچھ ملا ہو۔مزید یہ کہ میراثی اردو لغت میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کا موروثی پیشہ گانے کا ہو۔ ’میراثی‘‘ کا لفظ ’’میراث‘‘ سے نکلا ہے۔ عربی میں میراث کے معنی وراثت ہیں۔ خطہ پاک و ہند میں انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جو بندوبست ہوئے، ان سے پہلے مالکانہ حقوق یا خاندانی وراثت کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ رکھنے کا طریقہ موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا قوموں یا گوتوں کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا بلکہ یہ ریکارڈ میراثیوں کے دل پر نقش ہوتا تھا جو خصوصاً اپنے اپنے علاقوں کی گوتوں کے شجرہ ہائے نسب یاد رکھتے تھے اور پشت درپشت اپنی نسلوں کو بتاتے تھے۔ یہ لوگ ایک قسم کے جینالوجسٹ ہوتے تھے جس میں یہ فن پشت در پشت چلتا تھا۔ وراثت کے جھگڑوں، مالک اعلیٰ یا مالک ادنیٰ کے تعین، یا قوم، گوت اور برادری کے تعین میں میراثیوں کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔علاوہ ازیں یہ لوگ ہر قوم برادری یا گوت کے بزرگوں کے کارنامے بھی زبانی یاد رکھتے تھے۔ فلاں قوم میں فلاں سورما گزرا ہے جس نے فلاں فلاں کارنامے سرانجام دیئے تھے،خصوصاً شجرہ ہائے نسب کے یاد رکھنے میں وہ اس قدر تیز ہوتے تھے کہ ایک ہی سانس میں کسی قوم کا صدیوں پر محیط شجرہ نسب پڑھ ڈالتے تھے۔ زمینی، جنسی یا دیگر قبائلی وراثت کے تعین ضمن میں چونکہ انہیں معتبر سمجھا جاتا تھالہٰذا اسی وجہ سے ان کا نام میراثی پڑ گیا۔ یعنی میراث (یاد) رکھنے والا۔میراثی کوئی قوم اور ذات نہیں۔ میراثیت ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی پر بھی طاری ہو سکتی ہے۔ چونکہ میر عالم برادری پر کچھ زیادہ ہی طاری ہوتی ہے اس لئے انہیں میراثی کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کیفیات میں جگت بازی جسے جدید دور میں مزاح کا نام دیا جاتا ہے، اہم ہے۔ گانا بجانا یعنی گلوکاری جگت بازی سے کم اہمیت کی حامل نہیں۔ بجا اور بے جا تعریف و توصیف میراثیت کا سب سے بڑھ کر وصف ہے۔ حاضر جوابی کو میراثیت کے زائد اوصاف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میراثیت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ ہمارے ایک دوست مزاح نگار کے کالموں سے متاثر ہو کر ایک اجنبی ان سے ملنے چلا آیا۔ دفتر میں داخل ہو کر ان کی میز پر دونوں ہاتھ جمائے اور جھکتے ہوئے پوچھا ’’سرکار!کالموں میں آ پ ہی جگت بازی کرتے ہیں۔‘‘ میزبان بڑی حیرانی سے زیادہ پریشانی سے گویا ہوئے ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں! میں مزاح نگار ہوں۔‘‘ ایک ہی بات ہوئی ناں! ’’مزاح نگار یا جگت باز!‘‘ اس کے بعد بڑی آہستگی سے رازدارانہ لہجے میں کہا ’’میں بھی میراثی ہوں‘‘ --- ’’زبان سنبھال کر بات کرو میں سیّد ہوں‘‘ میزبان نے ذرا ترش اور سخت لہجے میں کہا۔ اس پراجنبی نے کہا ’’مولا خوش رکھے! ناراض نہ ہوں، دو تین سال سے ہم بھی قریشی ہو گئے ہیں، آپ ذرا تیز نکلے، ہماری اگلی منزل وہی ہے جس پر آپ پہنچ چکے ہیں‘‘۔ ’’قریشی صاحب‘‘ کی باتوں سے زچ میزبان نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا، اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے ہاتھ جوڑے، انکو واپسی کا راستہ یہ کہتے ہوئے دکھایا’’مولا خوش رکھے۔‘‘ تعریف و توصیف کا وصف کم یا زیادہ ہر شعبہ زندگی کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ سول و ملٹری بیورو کریسی، چھوٹے بڑے افسروں اور اہلکاروں میں خوشامدانہ اوصاف متعدی مرض کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ جونیئر اپنے سینئر کی تعریف کے قلابے ملا دیتا ہے اور عموماً ترقی و نوازش کے در کھلتے چلے جاتے ہیں۔بلا شبہ خوشامد سے حق غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میرٹ کی مٹی پلید ہو جاتی ہے۔ ہر حکمران سرکاری مولوی، سرکاری کن ٹُٹا، سرکاری گوَیَّا اور سرکاری خوشامدی رکھتا ہے، آج کے دور کے حکمرانوں نے ایسے کئی رکھے ہوئے ہیں، انہی سے مخالفوں کی ہجوگوئی کا کام بھی لیا جاتا ہے، انہی خدمات کے باعث کئی اُس مقام پر پہنچ گئے جسے وہ اولیٰ سمجھتے ہیں، مولا خوش رکھے! :-
Good
ReplyDelete