Breaking News

سیاسی پارٹیوں کامفاداتی منطق






 ساجد مومند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمارے سیاستدان عوام اور ملکی مفاد کے لیے کام کرتے تو اج اس ملک کا یہی حال نہ ہوتا یہ ملک اور عوام کیساتھ مخلص نہیں جھاں بھی اپنے مفادات نظرآتے ہیں اسی ہی کی مناسبت سے ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لہذا یہ بات درست ہے کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا اور ہر سیاسی پارٹی اور لیڈر پارٹی اور ذاتی مفادات ہر چیز پر مقدم اور عزیز رکھتے ہیں جبکہ ملکی اور عوامی مفادات بعد کی بات ہے اس کا اندازہ اس بات/بیان سے لگایا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت نے ملاکنڈ میں پولیس فورس کی تعیناتی کے لیے 26 کروڑ کی رقم مختص کی ہے اور مختلف اضلاع میں تعینات ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی فہرست مرتب کر لی ہے یہ فیصلہ صوبائی حکومت نے اس بنیاد پر کر لیا ہے کہ ملاکنڈ میں پولیس کو مداخلت میں مشکلات پیش آرہی ہیں صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر ملاکنڈ کے سیاسی پارٹیوں ANP.PPP.JI.JUI.PTI PML(N اور ٹریڈ یونین کے صدر نے پولیس کی تعیناتی اور ٹیکس نفاذ پر 28 دسمبر کو شٹر ڈاون اوراحتجاج کا اعلان کیا ہے ظاہری بات ہے کہ ملاکنڈ میں پولیس کی تعیناتی سے وہاں کے عوام کی مفادات کو نقصان ہے جب بھی کسی کے مفاد کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہو تو اپنے دفاع کے لیے احتجاج اور آواز اٹھانا انکی مجبوری بن جاتا ہے گیدڑ کی جو شامت آئی تو شہر کی طرف دوڑتا ہے سیاسی پارٹیاں صوبائی حکومت کو بدنام کرنے کا کریڈٹ لینے اور انے والے انتخابات میں عوام سے ووٹ لینے کے لیے عوام کابھر پور ساتھ دیں گے اور ہر سیاسی پارٹی عوام کی قربت حاصل کرنے کے لیے حتی الوسع کوشش کرے گی ۔ادھر ایک تیر دو شکار والے محاورے کی مصداق اچھی طرح واضح ہوتا ہے سیاسی پارٹیاں ماسواۓ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزی کے تمام سیاسی پارٹیاں فاٹا کے انضمام اور فاٹا میں پولیس کی تعیناتی کے لیے احتجاج اسمبلی سے واک اوٹ لانگ مارچ اور بعض ممبران کی طرف سے استعفی کی دھمکیوں پر حکومت پریشرائز کر رہی ہے اور ہر ایک سیاسی پارٹی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آرہے ہیں کہ ہماری ہمدردیاں قبائلی عوام کساتھ ہیں ادھر ایک سوال عرض ہے کہ قبائلی عوام کی قتل وغارت، گھروں کی مسماری۔لاکھوں قبائل گھر بار چھوڑ کر ائی ڈی پیز ہونے کھلے اسمان کئی سال گزارتے وقت کسی سیاسی پارٹی کے قائد نے پوچھا تک نہیں اب جب پارٹی مفادات اور ووٹ لینے کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے انکی ہمدردیوں میں دن دگنی رات چگنی اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف مفادات کو ٹھیس پہنچنے کی صورت میں ملاکنڈ میں پولیس کی تعیناتی پر احتجاج اور شٹر ڈاؤن کی کال دے رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ سیاسی پارٹیاں تمام تر مفادات اور اختلافات کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ صوبائی حکومت کے فیصلے کی مکمل حمایت اور پارٹیوں کی طرف سے تعاون کی یقین دلاتے بجاۓ احتجاج اور ہڑتال کی ۔ ملاکنڈ کا مسلہ فاٹا کے لیے ایک مثال بن جاۓ گا ۔بطور ایک منجھے ہوۓ سیاستدان مولانا فضل رحمان اپنے مفاد کے لیے قبائلی ملکان یا وہ لوگ جو انضمام کے مخالف ہیں انکی قربت اور ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیےانکا ساتھ دے رہے ہیں پتہ نہیں کہ فاٹا اصلاحات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اگر فاٹا کا مسٔلہ حل ہوا یا نہ ہوا فضل رحمان نے ملکان/ مشران جبکہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے اپنے ورکرز اور انضمامیوں کی ہمدردیاں حاصل کیں ۔

No comments