خدا کو ڈھونڈ رہا تھا کہیں خدا نہ ملا
غزل
بشکریہ: ادریس خان مومند
خدا کو ڈھونڈ رہا تھا کہیں خدا نہ ملا
زہے نصیب کہ بندے کو مدعا نہ ملا
زہے نصیب کہ بندے کو مدعا نہ ملا
ہم اپنی بے خودیٔ شوق پر نثار رہے
خودی کو ڈھونڈھ لیا جب ہمیں خدا نہ ملا
خودی کو ڈھونڈھ لیا جب ہمیں خدا نہ ملا
تمہاری بزم میں لب کھول کر ہوا خاموش
وہ بد نصیب جسے کوئی آسرا نہ ملا
وہ بد نصیب جسے کوئی آسرا نہ ملا
ہر ایک ذرہ میں میں خود تو آ رہا تھا نظر
عجیب بات تمہارا کہیں پتہ نہ ملا
عجیب بات تمہارا کہیں پتہ نہ ملا
بس اک سکون ہی ہم کو نہ مل سکا تا عمر
وگرنہ تیرے تصدق میں ہم کو کیا نہ ملا
وگرنہ تیرے تصدق میں ہم کو کیا نہ ملا
تری نگاہ محبت نواز ہی کی قسم
کہ آج تک تو ہمیں تجھ سا دوسرا نہ ملا
کہ آج تک تو ہمیں تجھ سا دوسرا نہ ملا
ترا جمال فضاؤں میں منتشر تھا مگر
نگاہ شوق کو پھر بھی ترا پتہ نہ ملا
نگاہ شوق کو پھر بھی ترا پتہ نہ ملا
ہزار ٹھوکریں کھائیں ہزار سو بہزادؔ
جہان حسن میں کوئی بھی با وفا نہ ملا

No comments