غالب کي غزل
مرزاغالبــــــ
بشکريه: فيروزآفريدي
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا هے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا هے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شاه کا مصاحب پھرے ہیں اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

No comments