Breaking News

قبائلی ادیب اور فنکار نظرانداز کیوں ؟


                                   
          ،،غلام حسین محب،،               
                 
پاکستان کے دوسرے صوبوں کی ادبی اور فنی صورتحال کچھ بھی ہولیکن اگر پختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں کچھ عرسے سے شعراء،ادباء اور فنکاروں پر قسمت کی دیوی مہربان ہو چکی ہے۔ صوبائی حکومت نے شاعروں اور فنکاروں کو ماہانہ وظائف کا اجرا کیا ہے جو ماہانہ تیس ہزار تک ہے۔یہ ایک نہایت خوش آئند بات اور باعثِ حوصلہ افزائی ہے کیونکہ شاعر ،ادیب اور فنکار کا یہی ایک دیرینہ گِلہ شکوہ رہا ہے کہ ان کی کوئی سرپرستی یا حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جبکہ ان کی اکثریت غربت کا شکار ہوتی ہے۔اب یہ شکوہ بلکہ ناراضگی صرف قبائلی شعرا کی باقی ہے۔
قبائلی علاقے جہاں سونا اگلتی بیش قیمت قدرتی معدنی خزانوں سے مالا مال ہیں وہاں افرادی قوت اور باصلاحیت شخصیات کے لیے بھی ثانی نہیں رکھتے۔فن و ادب ہو سپورٹس ہو یا دیگر صلاحیتیں یہاں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ملک کے دوسرے علاقوں سے کسی طرح کم ہوں۔ شعراء،ادیب اور فنکار جو قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں میں ایسی شخصیات کے نام آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف قبائل بلکہ پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔جن میں باباحمزہ خان شینواری ،کاکا جی صنوبرحسین مومند،رشید باجوڑے،ناظرشینواری،روشن بنگش وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ان کے علاوہ ایسے کئی نام ہیں جنہوں نے نہ صرف ادب بلکہ صحافت میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیے۔ جبکہ ان قبائلی علاقوں میں کثیر تعداد میں ادبی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جو ادبی اور ثقافتی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔باجوڑ ایجنسی میں باجوڑ ادبی ٹولنہ، باجوڑادبی کاروان،پختانۂ ادبی ملگری اور سلارزئی ادبی ٹولنہ، مہمندایجنسی میں مہمندادبی غنچہ، مہمند ادبی ٹولنہ، کے علاوہ کئی ادبی تنظیمیں ہیں جبکہ صرف ایک سال یعنی ۲۰۱۵ء میں مہمند ایجنسی کے شعرا ء کی دس کتابیں شائع ہوئیں۔خیبرایجنسی میں خیبر پختو ادبی جرگہ، تاترہ ادبی جرگہ،جمرود ادبی لیکوال،ملاگوری ادبی ٹولنہ وغیرہ۔اورکزئی ایجنسی میں اورکزئی پختو ادبی قافلہ،اورکزئی ادبی جرگہ،تیراہ ادبی ٹولنہ، اور کزئی ادبی کاروان۔ کرم ایجنسی میں سپین غر ادبی ٹولنہ،کُرم ادبی ٹولنہ صدہ،سباؤن ادبی ٹولنہ علیزئی،اور سپری ادبی ٹولنہ کے علاوہ وزیرستان میں بھی کئی ادبی تنظیمیں موجود ہیں۔ یہ تمام ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ یعنی چندہ کرکے چلائی جا رہی ہیں وسائل نہ ہونے کے باوجود نہ صرف ادبی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ ہر سال نئی کتابیں تخلیق کرکے شائع ہوتی رہی ہیں۔
کاکا جی صنوبر حسین مومند کا نام ادبی اور صحافتی لحاظ سے ایک ایسا نام ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں انجمن ترقی پسند مصنفین پختونخوا ان کا کام سراہنے اور یاد رکھنے کے لیے گاہے بہ گاہے تقریبات کا اہتمام کرتی رہی ہے۔ صنوبر حسین مومند نے ۱۹۳۰ء میں تحریک آزادی کے نامور مجاہدحاجی صاحب ترنگزئی کا ساتھ دیتے ہوئے غازی آباد مہمند علاقے سے ’’شُعلہ‘‘ کے نام سے ایک مجلہ نکالا اور باوجود مشکل حالات اور تیکنیکی مسائل کے انہوں نے کافی عرصہ اسے چلایا ۔ جو قبائلی پختونوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔بعد میں صنوبر حسین مومند باجوڑ چلے گئے تو وہاں سے اسے شائع کیا۔باجوڑ کا نام روشن کرنے کے حوالے سے ایک نام قاضی عبدالحلیم اثر کا ہے جنہوں نے شعرو ادب میں اپنا اسلوب اور پہچان متعارف کرایاجو پختونخوا کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے اور جس پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔
صنوبرمومندکے ’’شعلہ‘‘ کو دوبارہ روشن کرنے کے لیے باجوڑایجنسی کے شاعر اور باہمت شخص جعفر خان جعفر نے صنوبر مومند کی سالگرہ ۱۹۹۴ء میں منانے کے لیے ایک تقریب اور مشاعرے کا اہتمام کیا یہی سالگرہ ۱۹۹۵ء میں بھی منائی گئی اور جب ۱۹۹۶ء میں سالگرہ منائی جارہی تھی توجعفر خان جعفر نے بحیثیت ایڈیٹر شعلہ مجلہ کا پھر سے اجراء کیااور کئی سال تک جاری رکھاجوادبی اور صحافتی لحاظ سے ایک قابل قدر کام ہے ۔جعفر خان جعفر نے باجوڑ کا ملّی ترانہ بھی لکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متحدہ عرب امارات میں جب پاکستان سپرلیگ کے نام سے کرکٹ سیریز کا آغاز ہوا جس میں تمام صوبوں سے کرکٹ میچ کے لیے مختلف ناموں سے ٹیموں نے شرکت کی تو پختونخوا سے ’’پشاور زلمی‘‘ کے لیے جعفر خان جعفر نے ’’شملہ‘‘ کے نام پر ترانہ لکھا جو معروف گلوکار اور موسیقار بختیار خٹک نے گا کر چار چاند لگائے اور کافی مقبول ہوا۔جعفر خان نے دو کتابیں تالیف کیں جن میں قاضی عبدالحلیم اثرکی کتاب ’’ دباجوڑ تاریخ‘‘اور رشیدباجوڑی کی’’ کلیات ‘‘شامل ہیں۔ اسی طرح باجوڑ کے لعل زادہ ساگر نے تین کتابیں جبکہ باچازادہ حیران نے دو کتابیں تخلیق کیں علاوہ ازیں عبدالحق درد،محمدخان باجوڑے، اوراشناباجوڑے سمیت درجنوں باصلاحیت شعراء ہیں۔مہمند ایجنسی میں راقم الحروف نے چھ شعری مجموعے شائع کیے جبکہ ’’دوران‘‘ ’’قبائل‘‘ اور ’’غازی ‘‘جیسے مجلوں کی بحیثیت ایڈیٹر نگرانی کی۔حیران مومند نے ایک شعری مجموعہ شائع کیا اور’’قبائل نامہ‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔اسی طرح شمس مومند نے تاریخ، سفرنامہ اور شاعری کی تیں کتابیں شائع کیں۔رحم شیر ریحان کی دو، اجملی ارمانی کی دو ،تبسم مومند،طالب سنگر،غلام محمد خیال ، حضرت داغ اور حضرت حبیب حبیب وغیرہ کی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ 
امیرحمزہ خان شینواری خیبر ایجنسی کا قبائلی تھا مگر تمام پختونوں کے لیے باعث فخر اور اور ایک درخشندہ ستارہ ہے ۔ انہوں نے پشتو ادب کے لیے جو کام کیا ان کا ثانی ملنا مشکل ہے۔شاعری، ڈرامہ،سفر نامہ ہرصنف میں منفرد حیثیت کا حامل تھے۔انہوں نے اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں درجنوں کتابیں لکھیں جبکہ بعد میں انکا کلام دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا۔پشتو شعروادب حمزہ بابا کے بغیر ادھورا ہے۔ خیبر ایجنسی کے ایسے کئی نام ہیں جو ادبی لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔مقدر شاہ مقدر وہ شاعر ہیں جنہوں نے بیالیس 42تاریخی، تحقیقی، تنقیدی ،شعری اور نثری کتابیں لکھیں جن میں نوکتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ان کے علاوہ خیبر میں ایسے کئی نامور اور صاحب دیوان شعرا ہیں جن میں مرحوم ناظر شینواری، قندہار آفریدی،پروفیسر اسلم تاثیروغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اورکزئی ایجنسی میں معروف شعرا موجود ہیں م جن میں شاکر اورکزئی،صادق سرگردان،ممتاز اورکزئی اور خالد اورکزئی شامل ہیں جن کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔کُرم ایجنسی کے معروف شاعر ادیب روشن بنگش ہیں جنہوں نے تاریخ،تحقیق اور شاعری میں پندرہ کتابیں شائع کی ہیں جو قابل قدر کام ہے۔اسی طرح نورغلام نوری نے تین کتابیں لکھیں جبکہ شیرعالم طوری،فخری بنگش،اور یوسف حسین یوسف وغیرہ جیسے کئی قابل ذکرشعرا ہیں۔شعرا کے علاوہ مقامی فنکاربھی کسی سے کم نہیں جو موسیقی میں نام پیدا کرچکے ہیں لیکن ادب وثقاعت کی وزارت، اکادمی ادبیات اوردیگر ادارے قبائلی ادیبوں اور فنکاروں کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں۔گورنر پختونخوا کو ان با صلاحیت اور محب وطن شعراء اور فنکاروں کے لیے صوبے کی طرح ماہانہ وظائف سمیت مراعات دینی چاہیے۔۔۔۔۔۔

No comments