Breaking News

مراہواشخص واپس گھر پہنچ گیا

                                                                                                                                                                                                                                                                         ،،غلام حسین محب،،


جاویداپنے گاؤں کا غریب مگرمحنتی اور ایماندارشخص تھا۔وہ سبزی کا کاروبار کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔وہ سیزن کے مطابق کبھی پیاز کبھی ٹماٹر اور کبھی دھنیا وغیرہ کھیتوں میں جا کر زمینداروں سے خرید تااور بازار لے جاکر فروخت کرتا۔اس طرح وہ اپناگھر کا خرچہ چلاتا۔ کئی ماہ کے وقفے کے بعداس بار اُس نے پیاز کا سودا کیا تھااور اپنے گاوں کے دہقانوں سے ایک ٹرک پیازخریدا۔وہ بہت خوش تھا کہ پیاز کی مارکیٹ اچھی ہے اور اس بار وہ بہت کچھ کما کر لائے گاجس سے اس کا گزارہ ایک عرصے تک ہو جائے گا۔اس کے بچے بھی خوش تھے سولہ سالہ عارف نے والد سے ایک موبائل خریدنے کا مطالبہ کیا تو دس سالہ نورین نے نئے فیشنی کپڑوں کی کی فرمائش کی جبکہ چھوٹے عرفان اور گل نے کھلونوں کی فرمائشیں کیں۔ جاوید نے بیوی کی طرف دیکھا تو وہ کچھ نہ بولی اُس کو خاموش دیکھ کر جاویدمسکرایا اور کہا فکر نہ کرو میں پیاز بیچ کر سردریاب کی مچھلی لاؤں گااور بچوں کے ساتھ ملکرخوب کھائیں گے۔صبح کو جاوید کرایہ کا ٹرک لے آیااور اپنے بیٹے اورایک مزدورکی مدد سے پیاز ٹرک میں لوڈ کیے۔جاویداپنے منزل پشاورکی طرف روانہ ہوا۔ٹرک میں بیٹھ کر راستے میں وہ سوچتا رہا اورخوش ہو رہا تھا کہ سبزی منڈی پہنچ کر پیازاچھے داموں فروخت ہوا توابھی گاؤں میں کئی ایسے زمیندار ہیں جنہوں نے پیازکی فصل اگائی ہے۔ تووہ مزید پیاز خرید کرلے جاسکتا ہے۔ان ہی سوچوں میں گم وہ دل ہی دل میں خوشی محسوس کررہا تھاکہ اس بار کافی نفع ہوگاوہ اپنی ضروریات پوری کرے گا اور بچوں کی فرمائشیں بھی پوری ہوں گی۔جاوید نے منڈی پہنچ گیااور پیاز فروخت کردیا۔ادھر گھر والوں کوانتظار تھا کہ جاوید گھر آجائے تو بہت ساری چیزیں اور گھر یلواستعمال کی چیزیں بھی ساتھ لائیں گے۔جاوید کو گھر سے گئے ہوئے ابھی پانچ گھنٹے ہوچکے تھے کہ اچانک سارے گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ یکہ غنڈ بازار میں دھماکہ ہو گیا ہے جس میں بہت لوگ مارے گئے ہیں۔تمام گاؤں میں غم کا سماں بن گیا۔ ہر کسی کو اپنے لوگوں کی فکر تھی۔کیونکہ اسی گاؤں کے اکثر لوگ یکہ غنڈ بازار میں کاروبار کرتے تھے۔سبزی منڈی تو پشاورشہرمیں تھی مگر جہاں دھماکہ ہوا وہ بازار گاؤں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جو پشاور جاتے ہوئے راستے میں پڑتا تھا۔ جاوید کے بیٹے اوررشتہ داروں نے فون پر رابطے کیے مگر بے سُود۔ فون بند تھا۔گھر والوں کو فکر ہوئی اوراپنے گاؤں والوں کے ساتھ فوری طور پر بازار کی طرف چل پڑے۔
وہاں جا کرسب نے قیامت کا منظر دیکھاہر طرف لاشیں، انسانی اعضاء کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔سرکاری اہلکار لاشوں اور اعضاء کو اکٹھے کر رہے تھے۔ جلے ہوئے لاشوں کی بُو اور دھواں پھیلا ہوا تھا۔لوگ ادھربھاگ رہے تھے اوراپنے پیاروں کو تلاش کررہے تھے۔
علاقے کوسیکیورٹی فورسز نے گھیرا ہوا تھا۔جس لاش کی جیب سے کوئی نشانی برآمد ہوتی تواس کا نام اونچی آوازمیں پکارتا۔ اس دھکم پیل میں جاویدکا بیٹا عارف اورچھوٹابھائی ناصربھی جاوید کو تلاش کررہے تھے۔کسی نے آوازدی۔جاوید، اور اس نام کے سنتے ہی ناصر اورجاوید کا بیٹا عارف اُس لاش کے پاس پہنچ گئے۔لاش کا سر نہیں تھا اس کی جیب سے شناختی کارڈ ملا تھاناصر نے دیکھا واقعی وہ جاویدہی تھا۔ناصر اور عارف نے روتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے لاش اٹھائی۔اورگاڑی میں ڈال کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔دوسرے کئی گھروں کی جاویدکے میں بھی ماتم تھا۔سارا گاؤں غم میں دوبا ہوا تھا۔جاوید کاجنازہ اور کفن دفن ہوا۔تین روز تک دعاؤں کا سلسلہ چلا۔ سرکاری اہلکاروں نے دعاؤں کے ساتھ ہرمرنے والے شخص کے ورثاکے لیے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ اس المناک واقعے پر ہر جگہ بحث و بمباحثے جاری تھے۔اپنے رسم ورواج اورروایات کے مطابق تیسرے دن تک سوگ ہوتا ہے۔ تیسرے دن شام کا وقت تھا گھر کے تمام چھوٹے بڑے غم میں ڈوبے ہوئے خاموش بیٹھے تھے۔کہ اچانک گھرمیں ایک شخص داخل ہوا۔اور السلام علیکم کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔گھر کے سارے افرادچونک گئے اور گھورکر دیکھا توسب کے منہ سے چیک نکل گئی۔پاپاواپس آگئے ؟ پاپا کاروح آیا ہے؟ سب کے سب ڈر کر گھر سے باہر نکل آئے۔شور سُن کر قریبی گھروں کے لوگ بھی باہر آئے۔اورایک دوسرے سے پوچھتے رہے کیا ہوا، کون آیا۔اتنے میں گھرمیں داخل ہونے والا شخص باہر آیا اور چلّاکرکہا میں جاوید ہوں،میں اپنے گھر آیا ہوں آپ سب کو کیا ہوا؟ سب حیرانگی سے جاوید کو دیکھنے لگے۔مگر تم تو ؟ ہاں ۔ مگر میں مرا نہیں۔ جس کو تم لوگوں نے جاوید سمجھ کر دفن کیا وہ کوئی دوسرا شخص تھا۔میں تو پنڈی گیا ہوا تھا۔ جاوید کے بچے خوف اور خوشی کانپتے ہوئے جاویدکے ساتھ لپٹ گئے۔ اب سب لوگ جاوید کو گھیر کرمعلوم کرنے لگے کہ اصل واقعہ کیا ہے ۔جاوید نے اپنا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ میں نے ٹرک لے جاکر منڈی میں پیازفروخت کیادولاکھ سے زیادہ روپے ملے جو میں جیب میں ڈال کرواپس گھر آنے کی تیاری کررہا تھاکہ پشاورشہر میں کافی رش میں کوئی چور میرا جیب کاٹ کر ساری رقم اورمیرا شناختی کارڈ وغیرہ لے گیا۔میں بہت پریشان اور فکرمند ہوا کیونکہ میں سارے پیاززمینداروں سے قرض لیکر گیا تھا کہ پیازبیچ کرواپسی پرادا کروں گا۔میں اسی شرمندگی کی وجہ سے پنڈی گیا کہ چند روز بعد آؤں گاوہاں آج مجھے معلوم ہوا کہ یکہ غنڈمیں دھماکہ ہواہے لیکن پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اس میں کون مرگئے ہیں میں فوری طورپر گھر روانہ ہوا۔رواستے میں گاڑی میں لوگ بحث کررہے تھے کہ فلاں گاؤں کا جاوید بھی اس میں مرگیاہے۔میں نے اپنا چہرہ چھپایاہوا تھامجھے کسی نے نہیں پہچانا۔ہوسکتا ہے وہی چوراسی دھماکے والی جگہ آیاتھاجہاں وہ مرگیااس کی جیب میں میرا شناختی کارڈتھا۔اس لیے تم لوگ اسے جاوید سمجھ کرگاؤں لے آئے۔اب میں الحمدللہ زندہ ہوں۔بھائی اور بچے نے خوش ہوکر ایک اور خوش خبری سنائی۔کہ وہ دولاکھ روپے بھی ہمیں مل چکے ہیں کیونکہ وہ بھی اُسی لاش کی جیب میں پڑے تھے۔ 

No comments