غلام حسین محب کے بارے میں ۔
َََََََََََََََّّّّّّّّّ
سننے اور لکھنے میں ایک نام، دیکھنے میں ایک انسان مگر ہے ایک ہمہ گیر شخصیت اور ہمہ جہت کردار۔
درس و تدریس سے لیکر فنون لطیفہ تک کے کئی میدانوں کا شہسوار، سُر اور تال کی نغمگی ان کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہی ہے۔مصوری کی مشکل اور حساس راہوں میں بھی فن و ہنر کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔1983سے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیااور 2009میں رٹائرڈ ہوئے۔ NGOs میں ملازمت کی۔شعروادب اور صحافت کے ساتھ فطری طور پر وابستہ رہے۔یہ ہمہ جہت شخصیت گزشتہ 54سال سے زندگی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں،دشتِ صحافت میں تاحال محوسفر ہے اور کالم نگاری کے تیر ونشتر ہاتھ میں لیے حالات حاضرہ کی اندھیر نگری میں سچائی کا چراغ روشن رکھنے کے لیے اپنا خونِ جگر دیتا چلا آرہا ہے۔اخبار خیبر ، مشرق میگزین اور دیگراخبارات میں ان کے کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔ پشتو روزنامہ جرگہ ، ماہنامہ قبائل، ماہنامہ دوران میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔اسی طرح فاٹا کے پہلے پریس کلب ’’ مہمند پریس کلب‘‘ کابانی رکن اور 2003میں صدر ر ہے۔جبکہ 2004-5میں دو سال کے لیے ٹرائبل یونین آف جر نلسٹس’’TUJ‘‘ فاٹا کے جنرل سیکرٹری رہے۔
غلام حسین محب نے پشتو شعرو ادب کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے او ر’’ مومند اد بی غنچہ‘‘ کی بنیاد رکھ کرگزشتہ 28سال سے ادبی خدمات انجام دے رہاہے جس میں نئے لکھاریوں سمیت شعراء کی ادبی تربیت ہوتی رہی ہے۔اب تک پشتو شاعری کے چھ 6 شعری مجموعے شائع کر چکے ہیں۔معاشی اور معاشرتی مشکلات نے بھی ان کا جذبۂ فن اور ان کے قدموں کو ڈگمگایانہیں بلکہ اس میں بدرجہ ہا اضافہ کیااور ان کی تخلیقات میں نکھار پیدا کیا۔انہوں نے اُردو شعری مجموعہ ’’ محشرستان‘‘ شائع کرکے اپنی تخلیقات میں ایک اور گلدستے کا اضافہ کیاجو فاٹا سے اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگا۔
پروین شاکرؔ کے اس شعر کے ساتھ
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے ، زخمی تھے بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی
حیران ؔ مومند: 15-12-2016
مومند ادبی ٹولنہ غلنئی مومند ایجنسی
No comments