سوشل میڈیا اور قوم پرستی
(بشکریہ محمد ارشد خان)
سوشل میڈیا پر انسانی حقوق، جمہوریت، لبرلزم اور، سیکولرزم، نشنلزم اور پتہ نہیں کون کون سے ازموں کے نظریات سے زیادہ وہم میں مبتلہ دوستوں نے پنجاب یونیورسٹی اور پولیس کی طرف سے مبینہ طور ہنگامہ آرائی وغیرہ میں ملوث کچھ پشتوں اور بلوچ طلبہ کی گرفتاری پر حسب روایت "قومی جذبے" کے تحت اودھم مچایا ہوا ہے- شائد اپنے جارحانہ رویوں کیلئے مشہور اسلامی جمیعت طلبہ کے ساتھ اپنے "روایات کے تحفظ" کیلئے حسب معمول ان طلباء کا مسلح تصادم ہوا اور پولیس نے معمول کی کروائی کرڈالی-
ویسے زمانہ طالب علمی میں سٹوڈنٹ پالیٹکس کے نام سے پاکستانی "جمہوریت" کے اس طوفان بدتمیزی کا کسی حد تک حصہ رہنے کا شرف مجھے بھی رہا ہے لہذا اس معاملے میں معلومات کی بنیاد پر راۓ رکھ سکتا ہوں- اگر انتظامیہ یا پنجاب حکومت نے سارے طلباء تنظیموں کے شرپسند طلباء کے ساتھ یکساں طور پر یہی سلوک کیا ہے تو پھر پختون یا بلوچ کے نام پر احتجاج کرنا اپنی اور اپنے قوم کی توہین ہے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ہوا ہے جس کے امکانات یا وجوہات نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر مذمت اور احتجاج واجب ہے- ویسے ضمنی طور پر عرض ہے کہ کسی خاص سیاسی سوچ (یعنی نام نہاد "قوم پرست") رکھنے والے گنتی کے طالب علموں کو تمام پشتوں طلباء کے نمائندوں کے طور پر پشتون کہنا حقائق کے بنیاد پر اور اصولاً بھی غلط ہے خصوصاً جب پختوں طالب علموں کے یہ خودساختہ نمائندہ تنظیمیں اپنے پورے شدومد کے ساتھ پشتونوں کے وطن خیبر پختونخوا میں بھی وجود رکھتیں ہو-
مجھے یاد ہے ١٩٩٠ کی دھائی ہمارے انجینرنگ یونیورسٹی پشاور میں پیسا یا پنجاب سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم ہوتی تھی جوپنجاب یا اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں نہ تو لراوبر والے مسخروں کی طرح نام نہاد "پشتوں کلچر" کے نام پر اتنڑ وغیرہ کی طرح بھنگڑے کے پروگرام کرتے تھے اور نہ ہی سیاست کے نام پر کھوکھلی بدمعاشی بلکہ اکثر بیچارے شہری قسم کے لڑکے ہوتے تھے جو پنجاب کے سٹوڈنٹس کے رہائش وغیرہ کے مسلے حل کرتے تھے. اسی طرح سندھی یا مہاجر طالب علموں کی بھی کوئی تنظیم وغیرہ نہیں تھی گو کہ کافی تعداد میں تھے- اس "پنجابی" تنظیم نے بھی ہمارے گجر گڑھی مردان سے تعلق رکھنے والے ایک باجوڑی مزاحیہ شاعر دوست کو "خیر سگالی" کے طور پر اپنے کابینہ میں شامل کر دیا تھا اور لیکن باخبر دوستوں کے مطابق "نثار چپا" زبردستی مفت کے سموسے کھانے ان کے تنظیم میں نہ صرف شامل ہوگیا تھا بلکہ تنظیم کو یہ کہ کر کہ قبائلی ہونے کی وجہ سے ان کی "تقویت" کا سبب بنے گا کوئی اعزازی عھدہ بھی حاصل کرلیا تھا- انکے علاوہ پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت بھی اسلامی جمیعت طلبہ کا ہولڈ تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے جمیعت پر بھی پشتونوں کا ہولڈ تھا بلکہ اس وقت کے کی نامی گرامی ناظم پشتوں تھے- 😀
یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر برسرپیکار ان نام نہاد "قوم پرستوں" نے ہر معاملے میں ایک پرشور پروپیگنڈے کی زور پر اپنی ایک مکمل مصنوعی دنیا بنائی ہوئی جسکا حقیقی دنیا سے تو کوئی تعلق نہیں البتہ یہ گند کم از کم فکری لحاظ سے مذہب کے نام پر فساد اور دہشت پھیلانے والوں سے بلکل بھی کم تر برائی نہیں خصوصاً جبکہ بہت سے بیرونی عناصر کا بوجوہ پاکستان کے متعلق "معلومات" یا بیانیے کا ذریعہ ہی سوشل میڈیا پر چند خاص "لبرل" عناصر کا گھٹیا پروپیگنڈہ ہے - ایک بڑے انتظامی صوبے کی حثیت پنجاب یا اسکے حکمران طبقے کے متعلق کے متعلق چھوٹے انتظامی اکائیوں کے کئی تحفظات شاید درست ہیں لیکن اسکا تعلق قطعی طور ان نام نہاد قوم پرستوں یا انکے جعلی لبرل ہمنواؤں کے نعروں یا پھر پڑوسی ملکوں کے پروپگنڈے سے نہیں- اور آخری سوال بلکہ گزارش یہ ہے کہ پاکستانی نام نہاد سیکولر لبرل "جمہورے" اور "قوم پرستی" کے نام پر ایک باطل سیاسی اور معاشرتی بیماری میں مبتلہ میرے دوست مجھے دنیا کی کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں سیاسی اور مذہبی بلکہ فرقورانہ پارٹیوں سے وابستہ "طلباء تنظیموں" کی مثال نہیں دی سکتے کیونکہ اتفاق سے جمہوریت کی ماں کہلانے والے کسر القومی اور کثیر المذہبی برطانیہ کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہنے کا مجھے بھی اتفاق ہوا ہے جہاں پر نسل، زبان، قومیت، ملک، مذہب اور حتیٰ کہ جنسی رحجانات تک کی بنیاد پر طلباء کی فلاحی تنظیمیں ضرور موجود ہیں لیکن سیاسی جھتے نہیں-
No comments