راء، "رام" اورافغانستان
(تحریر:محمد ارشد خان صافی )
================
امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعاون سے مذاکرات میں کابل حکومت کو نظرانداز کرنے سے ایک طرف تو امن معاہدے اور افغانستان کی ١٧ سالہ جنگ کے خاتمے کے امید بندھی ہے تو دوسری طرح لگتا ہے امریکا کے اچانک اپنی افواج کو نکالنے کے فیصلے سے ایک نئے خونریز باب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے- اس سلسلے میں پہلا قدم طالبان یا پاکستان کے طرف سے نہیں بلکہ حسب معمول امریکی قبضے کے زیرسایا قائم کردہ کابل کی حکومت کی طرف سے "کشتیاں جلانے" کے عمل سے آج اٹھا دیا گیا ہے- اشرف غنی انتظامیہ نے کسی خود کش حملہ آور کے بیلٹ باندھنے کی طرح راء کے تربیت یافتہ اور اپنی پاکستان دشمنی کیلئے مشہور افغان انٹلیجنس کے دو سابق سربراہان کو داخلہ اور دفاعی امور کی وزارتیں سونپ دی ہے- امراللہ صالح کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا جو کہ پاکستانی دفاعی اداروں کے خلاف ایک غیر صحتمندانہ قسم کی جنونی دلچسپی اور پروپیگنڈے کیلئے بھارت میں مقبول ہیں- دوسری طرف افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کا پاکستان میں حملوں پر خوشی منانے کیلئے مشہور اور افغانستان طالبان کے مشکوک حامیوں کے خلاف ڈاکٹر نجیب جیسے سفاکی کیلئے شہرت پانے والے اسد الله خالد کو وزیر دفاع مقرر کردیا گیا ہے- افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ان دونوں حضرات کے دور میں صرف پاکستان (خصوصاً پختونخوا) میں بم دھماکوں کے واحد فن میں ماہر اور سوویت دور میں کے جی بی کے اہلکار ڈاکٹر نجیب کے خاد (خدمات اطلاعات دولتی) کا نام بھارتی راء کی سرپرستی میں "رام" (ریاست امور امانت ملیہ) پڑا جو کہ آجکل این ڈی ایس کہلاتی ہے- یہی مستند حقائق ہیں جسکی تشریح قارئین اپنے اپنے "عقائد" کے مطابق کرسکتے ہیں- یہ دونوں حضرات کھلے عام افغان طالبان کو پاکستانی پراکسی یا "پنجاب کے آلہ کار دہشتگرد" کہتے ہیں جو کہ اب یہ جنگ امریکا سے تقریباً جیت چکے ہیں اور اس صورت میں ان سے اس لچک یا حقائق کے ادراک کی توقع حماقت ہے جو کہ آج افغانستان کی امن کے سب سے بڑی ضرورت ہے- دوسری طرح طالبان کی سوچ یہ ہے کہ جب ہم نے امریکہ جیسے سپر پاور کو نکلنے پر مجبور کردیا تو چند بھارتی حمایت یافتہ ننگیال کس باغ کی مولیاں ہیں-
یہ اہم پیش رفت افغان جنگوں سے سب سے زیادہ متاثر ریاست اور اسکے باوجود بوجوہ سب سے زیادہ مذمت کے شکار پاکستان کیلئے زیادہ تشویشناک ہے یا افغانستان کیلئے یہ تو وقت بتائیگا- ایک حقیقت بہرحال موجود ہے کہ تاریخی طور پر کابل کے حکمران اکثر پاکستان کو "پیغام" دینے کیلئے اقدامات کرتے کرتے اپنی اندرونی صورتحال کو نظر انداز کردیتے ہیں اور نتیجتا ً اسکا شکار ہوجاتے ہیں- سردار داود اسی زعم میں اپنے ہی قوم پرست کمونسٹ حریفوں کے ہاتھوں خاندان سمیت قتل ہوۓ، اۓ این پی کے افغانی اتل ڈاکٹر نجیب اسی پالیسی کا پالن کرتے کرتے طالبان کے ہاتھوں اسی شہر کے چوک میں پھانسی پر لٹک گئے جسکا وہ "قصائی" کہلاتے تھے- آخری مثال پی ٹی ایم کے ہیرو جنرل رازق کی ہے جو اپنے خیالی "پنجابی دشمن" کو گالی دیتے دیتے اپنے ہی مقامی محافظ کے ہاتھوں قتل ہوگئے- یہ بھی حقیقت ہے کہ عسکری طور پر آج کا پاکستان ١٩٩٠ کے پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اسلئے افغانی حکمرانوں کی ترجیح پاکستان کو پیغام دینے کے بجاۓ افغانستان کا امن ہونا چاہئیے ورنہ ١٩٧١ کے نومولود پاکستان کے ساتھ ٢٥٠٠ میل دور بنگلہ دیش میں پیش اۓ سانحے کا ڈھول بجاتے بجاتے تو ہندوستان اپنا بہت سا جانی و مالی نقصان کر بیٹھا ہے اور پاکستان میں الطاف حسین نیم پاگل اور نواز شریف اور زرداری اپنے اسفندیاراور اچکزئی جیسے درباریوں سمیت معدوم ہورہے ہیں- پتہ نہیں اب پاکستان میں پی ٹی ایم جیسے کابل حکومت کے غیر سرکاری کارندے اور حسن خان جیسے "کابل دوست" صحافی افغان حکومت میں ٹی ٹی پی کے مداحوں کی شمولیت ۔۔کے بعد اپنی وکالت کیسے جاری رکھ سکیںگے یہ بھی وقت بتائیگا
================
امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعاون سے مذاکرات میں کابل حکومت کو نظرانداز کرنے سے ایک طرف تو امن معاہدے اور افغانستان کی ١٧ سالہ جنگ کے خاتمے کے امید بندھی ہے تو دوسری طرح لگتا ہے امریکا کے اچانک اپنی افواج کو نکالنے کے فیصلے سے ایک نئے خونریز باب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے- اس سلسلے میں پہلا قدم طالبان یا پاکستان کے طرف سے نہیں بلکہ حسب معمول امریکی قبضے کے زیرسایا قائم کردہ کابل کی حکومت کی طرف سے "کشتیاں جلانے" کے عمل سے آج اٹھا دیا گیا ہے- اشرف غنی انتظامیہ نے کسی خود کش حملہ آور کے بیلٹ باندھنے کی طرح راء کے تربیت یافتہ اور اپنی پاکستان دشمنی کیلئے مشہور افغان انٹلیجنس کے دو سابق سربراہان کو داخلہ اور دفاعی امور کی وزارتیں سونپ دی ہے- امراللہ صالح کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا جو کہ پاکستانی دفاعی اداروں کے خلاف ایک غیر صحتمندانہ قسم کی جنونی دلچسپی اور پروپیگنڈے کیلئے بھارت میں مقبول ہیں- دوسری طرف افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کا پاکستان میں حملوں پر خوشی منانے کیلئے مشہور اور افغانستان طالبان کے مشکوک حامیوں کے خلاف ڈاکٹر نجیب جیسے سفاکی کیلئے شہرت پانے والے اسد الله خالد کو وزیر دفاع مقرر کردیا گیا ہے- افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ان دونوں حضرات کے دور میں صرف پاکستان (خصوصاً پختونخوا) میں بم دھماکوں کے واحد فن میں ماہر اور سوویت دور میں کے جی بی کے اہلکار ڈاکٹر نجیب کے خاد (خدمات اطلاعات دولتی) کا نام بھارتی راء کی سرپرستی میں "رام" (ریاست امور امانت ملیہ) پڑا جو کہ آجکل این ڈی ایس کہلاتی ہے- یہی مستند حقائق ہیں جسکی تشریح قارئین اپنے اپنے "عقائد" کے مطابق کرسکتے ہیں- یہ دونوں حضرات کھلے عام افغان طالبان کو پاکستانی پراکسی یا "پنجاب کے آلہ کار دہشتگرد" کہتے ہیں جو کہ اب یہ جنگ امریکا سے تقریباً جیت چکے ہیں اور اس صورت میں ان سے اس لچک یا حقائق کے ادراک کی توقع حماقت ہے جو کہ آج افغانستان کی امن کے سب سے بڑی ضرورت ہے- دوسری طرح طالبان کی سوچ یہ ہے کہ جب ہم نے امریکہ جیسے سپر پاور کو نکلنے پر مجبور کردیا تو چند بھارتی حمایت یافتہ ننگیال کس باغ کی مولیاں ہیں-
یہ اہم پیش رفت افغان جنگوں سے سب سے زیادہ متاثر ریاست اور اسکے باوجود بوجوہ سب سے زیادہ مذمت کے شکار پاکستان کیلئے زیادہ تشویشناک ہے یا افغانستان کیلئے یہ تو وقت بتائیگا- ایک حقیقت بہرحال موجود ہے کہ تاریخی طور پر کابل کے حکمران اکثر پاکستان کو "پیغام" دینے کیلئے اقدامات کرتے کرتے اپنی اندرونی صورتحال کو نظر انداز کردیتے ہیں اور نتیجتا ً اسکا شکار ہوجاتے ہیں- سردار داود اسی زعم میں اپنے ہی قوم پرست کمونسٹ حریفوں کے ہاتھوں خاندان سمیت قتل ہوۓ، اۓ این پی کے افغانی اتل ڈاکٹر نجیب اسی پالیسی کا پالن کرتے کرتے طالبان کے ہاتھوں اسی شہر کے چوک میں پھانسی پر لٹک گئے جسکا وہ "قصائی" کہلاتے تھے- آخری مثال پی ٹی ایم کے ہیرو جنرل رازق کی ہے جو اپنے خیالی "پنجابی دشمن" کو گالی دیتے دیتے اپنے ہی مقامی محافظ کے ہاتھوں قتل ہوگئے- یہ بھی حقیقت ہے کہ عسکری طور پر آج کا پاکستان ١٩٩٠ کے پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اسلئے افغانی حکمرانوں کی ترجیح پاکستان کو پیغام دینے کے بجاۓ افغانستان کا امن ہونا چاہئیے ورنہ ١٩٧١ کے نومولود پاکستان کے ساتھ ٢٥٠٠ میل دور بنگلہ دیش میں پیش اۓ سانحے کا ڈھول بجاتے بجاتے تو ہندوستان اپنا بہت سا جانی و مالی نقصان کر بیٹھا ہے اور پاکستان میں الطاف حسین نیم پاگل اور نواز شریف اور زرداری اپنے اسفندیاراور اچکزئی جیسے درباریوں سمیت معدوم ہورہے ہیں- پتہ نہیں اب پاکستان میں پی ٹی ایم جیسے کابل حکومت کے غیر سرکاری کارندے اور حسن خان جیسے "کابل دوست" صحافی افغان حکومت میں ٹی ٹی پی کے مداحوں کی شمولیت ۔۔کے بعد اپنی وکالت کیسے جاری رکھ سکیںگے یہ بھی وقت بتائیگا
-
بس اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کریں اور یہی تو بدقسمتی ہے کیا کریں ایک انسان پھر مسلمان اور ہمسایہ ملک اور زبان اس وجہ سے دل میں درد زیادہ محسوس ہوتا ہے
ReplyDelete