کچھ قانونی لطائف
( تحریر : محمدارشد خان ) ):
===========
کہتے ہیں کرپشن تو ثابت ہی نہیں ہوئی اسلئے یہ "امتیازی احتساب" جہموریت دشمن قوتوں کی سازش ہے- یعنی کرپشن نہ ہوئی حدود الله کا کوئی اخلاقی یا جنسی جرم ہوگیا کہ چار لوگوں نے رنگے ہاتھوں عمل کرتے پکڑا نہیں تو پردہ رکھ کر ملزم کا معاملہ الله پر ہی چھوڑ دیا جاۓ- اور پھر یہ کہ پانامہ میں تو سینکڑوں اور لوگوں کی بھی آف شور کمپنیاں پکڑی گئیں اور زرداری سمیت کئی اور چور ڈاکو آزاد پھر رہے ہیں- یعنی اس اصول کے تحت پاکستان بلکہ دنیا کے جیلوں میں تمام مجرموں کو آزاد کر دیا جاۓ کیونکہ کئی مجرم تو ابھی بھی آزاد پھر رہے ہیں- قانون کے ایک ادنا طالبعلم کی حیثیت سے میری گزارش یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں ان ٤٠٠ پاکستانی آفشوریوں میں کتنے لوگوں کے اثاثے انکے ظاہر کردہ یا معلوم یا ٹیکس شدہ اثاثوں سے زیادہ تھے اس کے متعلق مفروضوں سے تو کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوگا- ان میں نے سے صرف ان لوگوں پر نیب کے کرپشن کا قانون لگتا ہے جو کہ کسی عوامی یا سرکاروں عھدوں پر رہے ہو اور یا ایسے عھدوں پر رہنے والوں کے وارث یا زیر کفالت لوگ ہو جن میں ظاہر ہے حکمران خاندان سر فہرست تھا- ایسی دولت کو متعلقہ قانون کے تحت کرپشن ہی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ظاہر ہے آج کے دورمیں نہ تو کوئی رشوت یا کمیشن اشرفیوں کی تھیلی میں اصول کرتا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی رسید یا براہراست گواہ ہوتا ہے- کرپشن کے قوانین اور اصول شہادت میں ملزم پر ہی بار ثبوت کا یہ اصول برطانیہ سمیت پوری جمہوری دنیا میں ہے- برطانیہ میں ١٨٩١ کے عوامی اداروں کے بدعنوانی کے قانون اور ٢٠٠٦ کے انسداد بدعنوانی کے قانون کے تناظر میں اسکو ریورس برڈن آف پروف کا اصول کہا جاتا ہے- اور یہی اصول اسلامی نظریہ احتساب کا ہے جس کیلئے حضرت عمر فاروق (رض) کی طرف سے صرف ایک لمبے چادر تک کے حساب کی مثال دی جاتی ہے- جو سرمایہ دار کسی سرکاری عھدے پر نہیں رہے ہو انکی ایسی چھپی ہوئی دولت کا احتساب انکم ٹیکس یا پھر منی لانڈرنگ کی قانون کے تحت متعلقہ مالیاتی اداروں اور محصولات کے سرکاری محکموں کا کام ہے جو کہ ظاہر ہے نواز شریف کی حکومت میں تو ممکن نہیں تھا جو خود اربوں کے آمدنی کے ساتھ بھی چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے رہے ہو- ان کے اپنے کیس کو بھی سپریم کورٹ کو نمٹانا پڑ گیا جب ایک پاگل خان کے دھرنوں سے گھبرا کر شریف مافیا کو مجبوراً سپریم کورٹ کا تحقیقاتی کمیشن قبول کرنا پڑا لیکن انکی بدقسمتی کہ انکو وہاں اور جسٹس قیوم، جسٹس تارڑ اور جسٹس خواجہ شریف نہیں ملے اور ملک کے مہنگے ترین وکیل انکو بچا نہ سکے کیونکہ شریف مافیا تو جج کرنے کا عادی تھا وکیل کا نہیں- زرداری بھی اسی قانون کے شکنجھے میں بڑی آسانی سے آجاتا بشرط یہ کہ شریف مافیا اپنے ہی بناۓ گئے اس قانون کو جسٹس قیوم جیسے قانون کے دلالوں کے ذریعے مکھ مکا، سیاسی انتقام یا بارگیننگ کے بجاۓ حقیقی معنوں میں احتساب کیلئے استعمال کرتا- لیکن قران کہتا ہے نا کہ یہ لوگ اپنی چال چلتے ہیں اور الله اپنی اور بیشک وہی بہترین چال چلنے والا ہے-
===========
کہتے ہیں کرپشن تو ثابت ہی نہیں ہوئی اسلئے یہ "امتیازی احتساب" جہموریت دشمن قوتوں کی سازش ہے- یعنی کرپشن نہ ہوئی حدود الله کا کوئی اخلاقی یا جنسی جرم ہوگیا کہ چار لوگوں نے رنگے ہاتھوں عمل کرتے پکڑا نہیں تو پردہ رکھ کر ملزم کا معاملہ الله پر ہی چھوڑ دیا جاۓ- اور پھر یہ کہ پانامہ میں تو سینکڑوں اور لوگوں کی بھی آف شور کمپنیاں پکڑی گئیں اور زرداری سمیت کئی اور چور ڈاکو آزاد پھر رہے ہیں- یعنی اس اصول کے تحت پاکستان بلکہ دنیا کے جیلوں میں تمام مجرموں کو آزاد کر دیا جاۓ کیونکہ کئی مجرم تو ابھی بھی آزاد پھر رہے ہیں- قانون کے ایک ادنا طالبعلم کی حیثیت سے میری گزارش یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں ان ٤٠٠ پاکستانی آفشوریوں میں کتنے لوگوں کے اثاثے انکے ظاہر کردہ یا معلوم یا ٹیکس شدہ اثاثوں سے زیادہ تھے اس کے متعلق مفروضوں سے تو کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوگا- ان میں نے سے صرف ان لوگوں پر نیب کے کرپشن کا قانون لگتا ہے جو کہ کسی عوامی یا سرکاروں عھدوں پر رہے ہو اور یا ایسے عھدوں پر رہنے والوں کے وارث یا زیر کفالت لوگ ہو جن میں ظاہر ہے حکمران خاندان سر فہرست تھا- ایسی دولت کو متعلقہ قانون کے تحت کرپشن ہی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ظاہر ہے آج کے دورمیں نہ تو کوئی رشوت یا کمیشن اشرفیوں کی تھیلی میں اصول کرتا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی رسید یا براہراست گواہ ہوتا ہے- کرپشن کے قوانین اور اصول شہادت میں ملزم پر ہی بار ثبوت کا یہ اصول برطانیہ سمیت پوری جمہوری دنیا میں ہے- برطانیہ میں ١٨٩١ کے عوامی اداروں کے بدعنوانی کے قانون اور ٢٠٠٦ کے انسداد بدعنوانی کے قانون کے تناظر میں اسکو ریورس برڈن آف پروف کا اصول کہا جاتا ہے- اور یہی اصول اسلامی نظریہ احتساب کا ہے جس کیلئے حضرت عمر فاروق (رض) کی طرف سے صرف ایک لمبے چادر تک کے حساب کی مثال دی جاتی ہے- جو سرمایہ دار کسی سرکاری عھدے پر نہیں رہے ہو انکی ایسی چھپی ہوئی دولت کا احتساب انکم ٹیکس یا پھر منی لانڈرنگ کی قانون کے تحت متعلقہ مالیاتی اداروں اور محصولات کے سرکاری محکموں کا کام ہے جو کہ ظاہر ہے نواز شریف کی حکومت میں تو ممکن نہیں تھا جو خود اربوں کے آمدنی کے ساتھ بھی چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے رہے ہو- ان کے اپنے کیس کو بھی سپریم کورٹ کو نمٹانا پڑ گیا جب ایک پاگل خان کے دھرنوں سے گھبرا کر شریف مافیا کو مجبوراً سپریم کورٹ کا تحقیقاتی کمیشن قبول کرنا پڑا لیکن انکی بدقسمتی کہ انکو وہاں اور جسٹس قیوم، جسٹس تارڑ اور جسٹس خواجہ شریف نہیں ملے اور ملک کے مہنگے ترین وکیل انکو بچا نہ سکے کیونکہ شریف مافیا تو جج کرنے کا عادی تھا وکیل کا نہیں- زرداری بھی اسی قانون کے شکنجھے میں بڑی آسانی سے آجاتا بشرط یہ کہ شریف مافیا اپنے ہی بناۓ گئے اس قانون کو جسٹس قیوم جیسے قانون کے دلالوں کے ذریعے مکھ مکا، سیاسی انتقام یا بارگیننگ کے بجاۓ حقیقی معنوں میں احتساب کیلئے استعمال کرتا- لیکن قران کہتا ہے نا کہ یہ لوگ اپنی چال چلتے ہیں اور الله اپنی اور بیشک وہی بہترین چال چلنے والا ہے-
حامد میر جیسے جن لوگوں کے پیٹ میں اپنی موروثی بیماریوں کے وجہ سے مسلسل جرنیلوں کے احتساب کا مروڑ پھر سے اٹھ رہا ہے انکےلئے عرض ہے کہ آئین تھوڑنے کے جرم کیلئے سزاۓ موت جیسی علامتی سزاؤں کی مثال شائد ١٩٧٣ کے آئین کے علاوہ دنیا کے قانونی اور آئینی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی- برطانیہ جسکو آئینی جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے کوئی تحریری آئین ہی نہیں رکھتا جسکو کسی عدالت سے نافذ کیا جاسکے- اگر ایسا کوئی قانون قابل عمل ہوتا تو ملک کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور ١٩٧٣ کے آئین کے خالق ذولفقارعلی بھٹو اس کا خود سب سے بڑا مجرم ہوتا- آرٹیکل ٦ کے تحت آئین توڑنے کا مجرم اور اس جرم میں انکے معاونین پر اصولاً بیک وقت فرد جرم عائد ہوتا ہے- اس طرح جنرل مشرف اور چند جرنیلوں کے ساتھ اس وقت کے عدلیہ، پارلیمنٹ اور کابینہ کی ارکان جن میں وزیر قانون سمیت آدھے سے زیادہ بعد میں نواز مافیا کی ٹیم کا حصہ بنے سب غداری کے مرتکب ہوۓ ہیں- جہاں تک "جرنیلوں کے کرپشن" والے نعرے کا تعلق ہے تو پاکستانی جمہوریت کے بچے جمورے آگے بڑھیں اور شروع اس عظیم لیکن بدقسمت ملک کے ١٠٠ مالدار ترین لوگوں سے کریں جنکے پہلے ١٠ میں ملک کے دو بڑے "جمہوری" حکمران خاندان شامل ہیں اور پھر ٤٠٠ آفشوریوں پر احتسابی تلوار چلائیں اور ان سب میں جتنے وردی والے نظر آئین انکو پہلے نمبر پر رکھیں- اگر کسی جمہوری حکومت کو اس "جرم" میں کسی خفیہ ہاتھ یا خلائی مخلوق نے ختم کرنے کے کوشش کی تو یقین کریں صرف پٹواری اور دیسی لبرل فیس بک پر گالم گلوچ اور جھوٹ نہیں بکینگے پوری پاکستانی قوم ٹینکوں کے نیچھے لیٹنے کیلئے نکل پڑیگی-
No comments