Breaking News

اسفندیار خان اور کالا باغ ڈیم ؟



============
(محمدارشد خان)
سوشل میڈیا پر کچھ عرصے پہلے اسفندیار ولی خان کا اپنے پارٹی کے ایک جلسے سے خطاب کا ایک کلپ وائرل ہوا تھا جس میں انہوں نے پشتو زبان کی روایتی وضعہ داری کی مٹی پلید کرتے ہوۓ مولا جٹ کے انداز میں بھڑک ماری تھی کہ "کالا باغ ڈیم پختون کی تباہی ہے ہم نے ایسے دفن کر دیا جیسے کہ ان لوگوں نے جناح صیب کو بھی دفن نہیں کیا ہوگا" - تقریر میں انہوں نے پاکستان کے موجودہ آئین کو چھیڑنے والے نامعلوم لوگوں کو خبردار کیا کہ یہ اگر اس آئین کو چھیڑا گیا تو پاکستان میں ایک نہیں پانچ آئین بنیںگے یعنی یہ ملک پانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا اور تقریر ختم کرتے ہوۓ انہوں کسی نامعلوم وجوہات کے بنا پر عمران خان کے کنٹینر کو مخاطب کرتے ہوۓ اپنے مرحوم والد اور دادا یعنی ولی خان اور سرحدی گاندھی باچا خان کے جے جے کار کے علاوہ پاکستان کے بجاۓ صرف پختونخوا زندہ باد کے نعرے بھی لگاۓ-
-----------------------------------
پتہ نہیں بیرسٹر محمد علی جناح کی روح اس باچا خانیت اور لاروبر افغانیت کے موزی مرض کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی جبکہ اس بھلے آدمی نے کبھی زندگی میں ان کے مشاہیر یا اتلان اور انکے پیارے وطن یعنی خوگ افغانستان کا ذکر بھی کبھی اچھے یا برے الفاظ میں نہیں کیا انکو کوئی نقصان پہنچانا تو دور کے بات ہے جہاں تک محمد علی جناح صاحب کے مردہ ہونے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے صرف ایک فانی انسان تھے اور وہ بھی کوئی امام یا پیغمبر نہیں بلکہ صرف جدید تاریخ میں مسلمانوں ایک فقید المثال لیڈر، ایماندار قانوندان اور بانی پاکستان تھے- اور نہ ہی ٥٠٠٠ سالہ تاریخ کا "اتل" ہونے کا دعوہ کرتے تھے - انکا نام اور انکے افکار بہرحال ماضی، حال اور مستقبل میں پاکستان کے زندہ رہنے تک کم از کم رہینگے چاہے کسی کوئی مرے یا جیے کیونکہ اپنے اولاد اور جائیداد سے اس ملک کیلئے ہاتھ دھو کر بھی وہ مسلم دنیا کے سب سے مضبوط اور تیسرے بڑے ملک کا باباے قوم بن بیٹھے- اپنے بعد انہوں نے انکا نام خراب کرنے والا وارث بھی اس ملک پر مسلط نہیں کیا جو انکی عزت و مقام میں کمی لا سکے اور جناب اسفندیارعلی کے آباؤ اجداد اور کابل میں انکے نظریاتی اکابرین کے برعکس محمد علی جناح صاحب اپنے جنم بھومی میں ہی ایک بہت بڑے آباد مقبرے میں دفن ہیں نہ کہ دیار غیر کے کسی ویران قبر میں جہاں صرف آوارہ کتے مشاعرے کرتے ہو- اسی طرح کالا باغ ڈیم کا بننا یا نہ بننا بھی ابھی تک خالص تکنیکی بنیادوں پر اور منصفانہ طور پر تمام صوبوں اور متعلقہ آبادی کے جائز حقوق اور مفادات کو مدنظر رکھ ہوچکا ہوتا اگر پاکستان دنیا کا واحد ملک نہ ہوتا جہاں پر ملک سے زیادہ ہمسایہ ممالک اور قوم سے زیادہ ذات اور خاندان کے مفادات کا تحفظ کرنے والوں کو جمہوریت کے نام پر سیاست کی اجازت نہ ہوتی- جس آئین کا ذکر جناب فرما رہے ہیں اسی آئین پر دستخط کرتے وقت انکے والد گرامی اور پشتونوں کے دوسرے جھوٹے ٹھیکہ داروں نے اپنی آدھی اینٹ کے سیاسی حجروں کے تحفظ کیلئے میانوالی، اٹک اور کالاباغ وغیرہ کے علاقے جو کہ تاریخی طور پر پختونخوا کے حصے تھے صوبہ پنجاب کے حوالے کئے جبکہ پنجاب نے نہ تو انکا مطالبہ کیا تھا اور نہ ہی وہاں ایسی کوئی قوم پرستی کے تحریک تھی وگرنہ تو کالاباغ تو کیا غازی بھروتھا ڈیم سے بھی سب سے زیادہ خیبر پختونخوا مستفید ہوتا- ویسے بھی ان نام نہاد قوم پرستوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہی جھوٹ پر مبنی کہ پاکستان کے پانچوں صوبے تاریخی، نسلی یا کسی بھی ثقافتی لحاظ سے چار مختلف قوموں یا ریاستوں کی نمائندگی کرتی ہیں- یہ تو انگریزوں کے وقت میں بننے والے انتظامی اکائیاں ہیں جو کہ ہندوستان پر قبضہ کرنے اور اپنی ریاست مستحکم کرنے کے آخری دور میں مسلم وادی سندھ اور گندارا کے ان مشکل علاقوں میں پہنچے جو کہ آج پاکستان کہلاتا ہے اور مختلف قوانین کے ذریعے یہ صوبے، ایجنسیاں اور نیم خود مختار ریاستیں بنائیں جو کہ پاکستان آئین کی وجہ سے صوبے بنیں کسی بین القوامی قانون یا خدائی اصول کے تحت نہیں-
------------------------------
یاد رہے کہ جناب اسفندیار نے ایک ایسی ہی مولا جٹی قسم کی بھڑک جنرل مشرف کے فاٹا پر ملٹری آپریشن کی خلاف بھی ماری تھی لیکن بعد میں ااپنے ہی پختون طالبان کے ہاتھوں لروبر کے بھائی چارے کا مزہ چکنے کے انکی پارٹی آئ ایس پی آر کی سیاسی ترجمان بن گئی جبتک کہ خطرہ ٹل نہ گیا تھا- آجکل فوج کے خلاف اسی قوم پرست بیانیے کا ٹھیکہ "دہشتگردی کے پیچھے وردی" کے عنوان سے ٹی ٹی پی کے سیاسی ونگ پی ٹی ایم نے اٹھایا ہوا ہے- پتہ نہیں کب اسفندیار ولی صاحب اور چادر والے سیاسی مسخرے اچکزئی صاحب کالا باغ ڈیم سمیت سرحدی اور بلوچی گاندیوں کے سیاست کوبھی اس وزیرستانی کشتی میں سوار کرتے ہیں جس میں سیاسی دریا میں اتارنے سے پہلے ہی کئی سوراخ تھے-

Written by: Muhammad Arshad Khan

No comments