قبائل کو پاکستانیت مبارک
(۔۔۔۔۔۔۔۔ (شمس مومند
انیس سو چیانوے میں ماہنامہ قبائل میں میرا پہلا افسانہ ( نابالغ) شائع ہوا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ سینکڑوں سالوں سے پاک افغان سرحد کے لاکھوں قبائل حکومت پاکستان کی نظر میں ابھی تک نابالغ ہیں کیونکہ اس وقت تک قبائلی عوام کو بالغ رائے دہی یعنی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ پابندی باقی پاکستان میں صرف اٹھارہ سال سے کم عمر افراد پر لاگو تھی۔ ٹھیک ایک سال بعدبے نظیر حکومت کے صدر فاروق لغاری نے قبائل کو بالغ رائے دہی کا حق دیکر انہیں بالغ تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک راقم الحروف سمیت تمام باشعور اور محب وطن قبائلی عوام کی جدوجہد کا مرکز و محور یہ تھا کہ فاٹا سے کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ کیا جائے اور انہیں مکمل پاکستانی تسلیم کرتے ہوئے وہ تمام حقوق دئے جائے جو باقی پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔ الحمد للہ کہ آج ہم وہ سنگ میل بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج سے قبائل قبائل نہیں رہے ۔ وہ بھی اسی طرح پشتون بن گئے جس طرح دیر، چارسدہ پشاور کوہاٹ بنوں اور ڈی آئی خان کے پشتون ہیں ، یہ تمام لوگ اب خیبر پختونخوا کے رہنے والے اور پاکستان کے مکمل شہری ہیں۔ اس لئے آپ سب قبائلی عوام کو مکمل پاکستانیت مبارک ہو۔
اگرچہ اس کار خیر میں سینکڑوں افراد نے انفرادی، درجنوں سیاسی پارٹیوں اور متعدد غیر سرکاری تنظیموں نے اجتماعی طور پر حصہ ڈالا ۔ اور سرتاج عزیز کمیٹی نے دو سال قبل یہی سفارشات پیش کی۔ مگر بقول شخصے ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں کے مصداق جب تک حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے عسکری قیادت نے اس کی حمایت نہیں کی تھی۔ قومی دھارے میں شمولیت اور انضمام کا خواب خواب ہی رہا۔ اسی لئے آج انہی سطور کے زریعے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو نہ صرف مبارکباد پیش کرتے ہیں بلکہ قبائل ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ ان کی ذاتی دلچسپی اور دوٹوک موقف کے بغیر حکومت کے بالکل آخری ایام میں اتنا بڑا فیصلہ ناممکن تھا۔
قارئین کرام کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ پختونخوا کا حصہ بننے سے ان علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ نہریں اور ترقیافتہ ممالک جیسی سہولیات پورے پاکستان میں نہیں ہیں۔ لیکن صرف اتنا ہوگا کہ اب کوئی مائی کا لعل قانون کے نام پر آپ لوگوں کا استحصال نہیں کر سکے گا۔ اب کوئی تحصیلداراور پولیٹیکل ایجنٹ فرعون کے لہجے میں آپ کے بزرگوں کی توہین نہیں کرسکے گا۔ اب کوئی لشکر مظلوم کی حمایت کے نام پر آپ کے بیوی بچوں کو گھروں سے نکال کر آپ کے گھروں کو نظر آتش نہیں کرسکے گا۔
جہاں تک انضمام کے مخالفین کے پروپیگنڈے اور عوام کو انضمام سے بدظن کرنے کا تعلق ہے۔ میں آج اس پر لکھنے کی بجائے صرف منظور ہونے والے بل کے چیدہ چیدہ نکات پیش کر رہاہوں تاکہ عام عوام کھلے ذہن اور مثبت سوچ کیساتھ آگے بڑھ سکے۔
اولا یہ کہ آئینی اور قانونی طور پر پاکستان میں اب فاٹا نام کا کوئی علاقہ نہیں رہا۔ اب باجوڑ سے لیکر وزیرستان تک کے تمام علاقہ پختونخوا کہلائے گا۔
ثانیا یہ کہ اس تمام علاقے میں ملک بھر میں عام انتخابات کے بعد اس سال کے آخر تک بلدیاتی انتخابات کرائے جاینگے۔ جس سے نہ صرف ہزاروں لوگوں کی سیاسی تربیت کا آغاز ہوگا، سیاسی لیڈر شپ سامنے آئے گی، بلکہ وہ اپنے مقامی مسائل بھی بہتر انداز میں حل کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔
ثالثا یہ کہ آئیندہ پانچ سال تک اس علاقے کے لئے قومی اسمبلی کی وہی بارہ اور سینیٹ کی آٹھ سیٹیں برقرار رکھی جائے گی۔ اس کے بعد اس میں باقی ملک کی طرح آبادی کی مناسبت سے کمی کی جائے گی۔ یعنی سینیٹ کی الگ سیٹیں ختم ہوگی مگر اس علاقے کا کوئی بھی باشندہ کسی بھی پارٹی کی نمائندگی پر پختونخوا اسمبلی سے ووٹ لیکر سینیٹر بن سکے گا۔ جبکہ قومی اسمبلی میں چھ سیٹیں باقی رہے گی۔
اربعا یہ کہ عام انتخابات کے بعد اس پورے علاقے میں صسوبائی اسمبلی کے لئے حلقہ بندیا ہوگی اور ایک سال بعد یہاں سے سولہ افراد جنرل نشستوں پر چار خواتین کی مخصوص نشستوں پراور ایک شخص اقلیت کی نشست پرانتخابات میں کامیاب ہوکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے ممبر بن سکے گا۔
خامسا یہ کہ اس پسماندہ علاقے کو باقی صوبے کے برابر لانے کے لئے دس سال تک سالانہ سو ارب روپے مختص کئے جاینگے۔ یعنی دس سال میں ایک ہزار ارب روپے کی لاگت سے یہاں کی قسمت بدلی جائے گی۔
اور سب سے آخری بات یہ کہ آئینی طور پر پختونخوا کا حصہ ہونے کے باوجود پانچ سال تک اس سارے علاقے کو ٹیکس سے استثنا حاصل ہوگا۔ یعنی یہاں ملاکنڈ ڈویژن کی طرح کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔
کالم کے آخر میں جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن اور جناب اچکزئی صاحب سے عرض کرتا چلوں۔ کہ آپ لوگ بھی پختونوں کے ہمدرد اور سیاسی رہنماء ہیں۔ اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اکثریت کی رائے کو تسلیم کرنا جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ آیئے اکثریت کے جمہوری فیصلے کو تہہ دل سے تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھے۔کیونکہ پختون قوم گزشتہ چالیس سال سے بہت سے انقلابات اور انتشاردیکھ چکی
ہے۔ احتجاج اور اختلاف کے نام پر مزید انتشار و افراتفری تباہ کن ہوگی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Written by: Shams Momand
shamsmomand @gmail.com
No comments