Breaking News

دیسی لبرل ذہنی مریضوں کاعلاج ؟

                                                                                                                         

                                                 (تحریر محمد ارشد خان)
دیسی لبرل ذہنی مریضوں کا وہی علاج ہے جو کہ ٹی ٹی پی کی باولے کتوں کا واحد علاج رہ گیا تھا اور پی ٹی ایم وغیرہ اور نظریاتی باچا خانی بھی انہی سے اپنا بیانیہ لیتے ہیں قوم کو ان کے متعلق بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئیے- کوئٹہ میں ملٹری انٹلیجنس کا کرنل سہیل عابد مظلوم ہزارہ برادری کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتےہوۓ شہید ہوگئے تو ایک دیسی لبرل فیس بکی افلاطون عاطف توقیرنے فوری طور پر اس دہشتگردی کے پیچھے بھی وردی کو تلاش کرکے "ریاستی اداروں کی پالیسی" کو ذمہ دار قرار دیا اسطرح نوشہرہ میں ایک خود باولہ ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے ایک چوک پر پھٹ کر کئی معصوم شہریوں کو شدید زخمی کر بیٹھا تو پی ٹی ایم کے ایک کے ایک فیس بکی ننگیال کو اس حادثے میں صرف یہ نظر آیا کہ پھٹنے والہ "پختونوں کے وطن" نوشہرہ کے بجاۓ چند کلومیٹر آگے اٹک پار "پنجاب" میں یا پھر قریبی کنٹونمنٹ میں کیوں نہیں پھٹا اسلئے یہ ضرور چیک پوسٹوں کو برقرار رکھنے کیلئے فوج کا کوئی ڈرامہ ہے- بلکل ویسے ہی جیسے انکا وہ فرنود عالم نامی ایک دوسرا گوبر دماغ دیسی سقراط شادی میں ہوائی فائرنگ سے ہلاکت کو بھی "اداروں کی افغان جہاد پالیسی" کے ساتھ جوڑ کر ہی دم لیتا ہے- اس عاطف توقیر  سے کوئی صرف سادہ سا سوال کرے کہ لشکر جھنگوی کس نے بنائی، کس نے القاعدہ کے ساتھ اسکا اتحاد کروایا، کونسے افغان جہاد یا کشمیری جنگ آزادی میں یہ پاکستانی اداروں کا "اثاثہ رہے (جو کہ دیسی لبرل اور باچا خانی گند کا ہر سوال کے جواب میں نعرہ ہوتا ہے)؟ وغیرہ وغیرہ جواب میں وہ پشتو محاورے کے الفاظ میں "ایک غر اور دوسرا غر" یعنی کوئی جواب نہیں اور کچھ زیادہ ٹٹولو گے تو تم کو جاہل بےغیرت گل خان، یا مطالعہ پاکستان کا شکار الباکستانی کہ کر اپنے نعرے لگاتا ہوا دفع ہوجائیگا. مذہبی اور سیکولر دہشتگردوں کو ملٹری آپریشن کے ذریعے جنگلی چونوں کی طرح تلف کیا جا رہا ہے چاہے افغانستان میں بیٹھتی ہر طاقت انکی امداد میں اپنی پوری طاقت لگا لے اور ان میں ہر ایک خودکش بن کر پھٹنے پر آمادہ بھی ہوجاۓ لیکن پتہ نہیں ان نظریاتی دہشتگردوں اور آلودگی کا کب صفایا ہوگا -دونوں کا خاتمہ ضروری ہے چاہے دوسری قسم تشدد میں ملوث نہ بھی ہو اور ایک چھوٹی سے اقلیت بھی ہو کم خطرناک نہیں کیونکہ جراثیم ہمیشہ بہت ہی تھوڑے لیکن مہلک ہوتے ہیں-
باقی جہاں تک پختونوں کے حقوق کے علمبردار ہونے کے وہم میں مبتلا گلمرجانوں کے ایک "آخری امید" منظور پشتیں کے ساتھ انکے " نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں "اتل بننے سے پہلے ان سے میرا ایک اتفاقاً ایک مختصر مکالمہ ہوا تھا- موصوف ایک ایسا خیالی پختونستان بنانے کی تحریک ناچیز کی راۓ مانگ رہے تھے جنکا انکا خود حدود اربعہ تک معلوم نہیں تھا اور اسکی بنیاد عجب خان آفریدی کے کسی نامعلوم نظریے پر رکھ رہے تھے جسکا وہ ابجد سے واقف نہیں تھے- آجکل وہ "آئینی مطالبات" منوانے کے آڑ میں افغانیوں اور لروبر نظریے کے شکست خوردہ عناصر کے کاندھوں پر ایک تحریک چلا رہے ہیں جس کے نعرے پاک فوج کے متعلق افغانی، امریکی اور ہندوستانی بیانیے کے مشتمل ہیں جبکہ ان تینوں میں ایک ٹریلین ڈالر لگانے کے باوجود افغانستان میں طالبان سے شکست کا سامنا ہے اور مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں کیونکہ افغان طالبان سے کہی زیادہ خونریز اور باوسائل پاکستانی طالبان پاکستانی فوج کے ہاتھوں جنگلی چوہوں کی طرح تلف ہونے کے بعد افغانستان میں اپنے باقی ماندہ اثاثے بچا رہی ہے- اور اسی ٹی ٹی پی کا پروپیگنڈہ میٹریل پی ٹی ایم استعمال کرتی ہے جنکے بیسوں ثبوت میں ابھی دے سکتا ہوں- اپنے جلسوں کیلئے ظاہر ہے انکو فوجی آپریشنوں سے متاثر علاقوں جو کہ پختونوں کی آبادی کے ١٠ % سے کم حصے کا وطن ہے سے ناراض عوام مل ہی جاتے ہیں اور اسکے علاوہ نواز شریف اور الطاف حسین جیسے ریاستی اداروں کے "زخم خوردہ" سیاسی مداری بھی اپنے انجام پر پہنچنے سے پہلے حمایت کیلئے حاضر ہیں جو کہ فوج اور ریاست کے خلاف بھارت تک کا امداد لے رہے ہیں- اپنے سیاسی موت کے قریب پاکستان میں افغانستان کا ترجمان محمود اچکزئی، افغانی راۓ عامہ اور وی او اے ڈیوا وغیرہ جیسے میڈیا کے ادارے کے پاس اس جعلی وزیرستانی تحریک کو پختون تحریک کا رنگ دیکر کوریج دینے کے بیشمار ناجائز وجوہات موجود ہیں جنکے ذکر پر وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا- وہ گیدڑ کی شامت اور شہر کا رخ کرنے والے اردو محاورے کے طرز پر پشتو کا ایک محاورہ ہے کہ چیونٹی کی جب موت آتی ہے تو خدا اسے پر دے دیتا ہے- بہت سے چیونٹیوں کو اپنے موت سے پہلے ایک ساتھ پر لگ گئے ہیں یہ تو ٹی ٹی پی جیسے خود کش باولے کتوں کے لشکر بھی نہیں رکھتے دیکھتے ہیں کتنا اڑتے ہیں ٢٠٠٠ میل دور بنگلہ دیش اور ٢٤ سالہ نومولود پاکستان کی مثالیں اور بھارتی جھوٹ نعرے بازی کیلئے کام آسکتی ہے جنگیں نہیں جتواتیں چاہے وہ آزادی اور امن کے نام پر لڑی جاۓ یا پھر حقوق کے نام پر-باطل باطل ہی رہتا ہے اور شکست اور دلت اسکا مقدر- یہ جذبات نہیں حقائق ہیں!-
Written by 
Muhammad Arshad Khan







No comments