Breaking News

فاٹا اصلاحات پرعوام کے تحفظات


 ( تحریر: حسین آفریدی)
قبائلی علاقوں کے لیے اصلاحات کے لیے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی8 نومبر 2015 اس وقت وجود میں آئی جب پشاور میں ارمی پبلک سکول پر دہشت کردوں حملہ کیا اور ملک کے ساری قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی جس کے نتیجے میں قومی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا جس کے شق نمبر 12 کے مطابق قبائلی علاقوں میں موجود ہ نافذ نظام کو تبدیل کیا جائے گا ۔کمیٹی کے ارکان مشیرخارجہ جناب سرتاج عزیز، وازیر اعظم کے مشیر سلامتی امورجنرل (ر)ناصرجنجوعہ، وازیر سیفران جنرل (ر) عبدالقاداربلوچ،وازیر ماحولیات جناب زاہد حامداور صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر جناب مہتاب خان عباسی تھے ۔مہتاب خان عباسی کے بعد اقبال ظفرجھگڑا نے بطور گورنر کے فاٹا اصلاحات کمیٹی نے قبائلی علاقوں کے دورے کیے گو کہ ہر علاقے کے پولیٹیکل انتظامیہ نے کوشش کی کہ کمیٹی کے سامنے چند مخصوص ٹولہ کو پیش کرکے یہ تاثر دیا جائے کہ موجودہ نظام میں قبائل خوش اور اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن شایدوہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس سے پہلے زلفقارعلی بھٹو شہید پہلی مرتبہ جنرل نصیراللہ بابر کی سربراہی 1977 میں پہلی کمیٹی بنائی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فاٹاکو صوبہ سرحد میں شامل کیا جائے لیکن جنرل ضیاء کے مارشلا نے حکومت کے خاتمے کا ساتھ کمیٹی بھی ختم ہو گئی اگر اس وقت فاٹا کو صوبے میں شامل کیا جاتا تو فاٹادنیا بھر کے جنگجوں کا مرکز نہ بنتا۔دوسری بار اصلاحات کے لیے جنرل پرویز مشرف نے کمیٹی 2006 میں صاحبزادہ امتیازکی سربراہی میں بنائی جس نے اپنے سفارشات فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کرنے پر زور دیالیکن ساتھ افغانستان میں قیام امن کے ساتھ مشروط کرکے جس سے ثابت ہوا کہ فاٹا علمی جنگ کے لیے بہترین ماحول فر اہم کرہاہے۔ فاٹا کے لیے میاں نوازشریف کی حکومت میں بنائی جانے والی کمیٹی عوام اور خواص کی تجاویز سنی جس میں مختلف قسم کی تجاویز سامنے ائی جس میں سے دو اہم تجاویز پر زیادہ بحث ہوئی ہے۔ 1 ) فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے۔2 ) فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔دونوں صورتوں میں ایف چی ار کا خاتمہ ضروری ہے ۔جبکہ ایف سی ار کے حمایتی ایک ٹولہ جس کو درپردہ بیورکریسی کی حمایت حاصل ہے اپنے مفادات اورایف سی ار کی حمایت کرنے پر بھی لاکھوں روپے بٹور چکے ہیں یہ گنتی کے چند مفاد پرست اپنے اپ کو قبائلی کہلانے پر فخر کرتے ہیں اور ایف سی ار کو اپنے رسم و رواج کے مطابق مانتے ہیں جبکہ ان سے کوئی بھی نہ تو خود قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور نہ ان کے بچے کسی فاٹا کے کسی سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں۔اس کے علاوہ مولانافضل الرحمان اور محمود اچکزئی نے فاٹا کی صوبہ خیبر پختونخوا میں شمولیت کی مخالفت کی میرے خیال میں مولانا فضل رحمان سے اچھے کا م کا توقع رکھنا بھی فضول ہے اور اس سے زیادہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتالیکن اچکزئی صاحب تو پختونوں کے نام کی سیاست کرتے ہیں ان کا پختونوں کی اتحاد کا مخالف ہونا میرے لیے تعجب کی بات ہے ۔اور دونوں فاٹا کے عوام کے لیے ایف سی ار کے قانون کو پسند کرتے ہیں تویہ قانون تو مولانافضل الرحمان اور محمود اچکزئی کے ابائی علاقوں پر بھی نافذ تھا اب ان کو یہ مطالبہ کرنا چاہیئے کہ پھر سے انگریز کا بنایا ہوا،کالا قانون چمن اور ڈی ائی خان پر نافذ کیا جائے۔کیونکہ پاکستان پر نافذ قانون میں رہتے ہوئے مولانا فضل رحمان 1999 سے اقتدار میں ہیں اور محمود اچکزئی صاحب کے خاندان کے14 افراد حکومت کا حصہ ہے ہوسکتا ایف سی ار کے نفاذ کے بعد ان کی مزید ترقی ہوجائے۔
لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ فاٹا کوآئینی اور خودمختیار الگ صوبہ بنایا جائے لیکن پاکستان میں پہلے سے دیگر صوبوں کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں اس لیے یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کی شہریوں کے مطالبے کو پورا نہ کرتے ہوئے قبائل کے لیے الگ صوبہ بنایاجائے کیونکہ اس کے پاکستان کے ائین میں ترمیم کرنا پڑیگی جو اس وقت ممکن نہیں۔دوسرا مطالبہ کہ قبائلی علاقے کو صوبے میں شامل کیا جائے نہایت ہی آسان اور قابل عمل تجویز ہے کیونکہ قبائلی علاقے کو دیکھا جائے تو لمبی پٹی( 27200 مربہ کلومیٹر) خیبرپختونخوا کے ساتھ جڑی ہوئی بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہیں تمام قبائل کی امد ورفت، تعلیم وصحت،معیشت وکاروباروغیرہ قریب ترین اضلاع کے ساتھ منسلک ہے جیسے کہ باجوڑایجنسی کا ضلع دیر اور سوات کے ساتھ مہمندایجنسی کا ضلع چارسد ہ اور ضلع مردان کے ساتھ خیبرایجنسی کا ضلع پشاور کے ساتھ ، وازیرستان ایجنسیز کا ضلع ٹانک ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں کی اپس میں رشتہ داریاں بھی ہوئی ہیں۔قبائلی علاقے کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرنا نہایت آسان اور ائین پاکستان کے مطابق ہے۔ ارٹیکل 247 میں صدر پاکستان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ جب چاہے قبائلی علاقے کا کچھ حصہ یا فاٹا پر کوئی قانون لاگو کر سکتے ہے ۔ جس کے لیے نہ تو پارلیمنٹ سے منظوری کی ضرورت ہے اور نہ کسی کمیٹی کی سفارشات کی 
کیونکہ 1996 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد نگران وازیراعظم ملک معراج خالد کی نگران حکومت نے ایک انتظامی حکم (Executive Order) کے زریعے قبائل کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی مرتبہ ووٹ کا حق دیا گیااور 1997 کے الیکشن پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نہایت پرامن ماحول میں ہوئے ،جس کے لیے نہ تو کوئی کمیٹی بنائی گئی نہ ،کوئی ریفرنڈم کیا گیااور نہ کوئی ائینی ترمیم کی گئی ۔ایسی طرح فاٹا پر کسٹم ایکٹ کا نفاذ کیا گیا جو صدرپاکستان کے ایک دستخط پر نافذ ہواکہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر حکومت چاہے تو فاٹا کو صوبہ خیبر اپختونخوا میں ضم کرنے کوئی راکٹ سائنس نہیں جس پر مہینے اور سالوں تک تحقیق کی جائے لیکن پاکستان میں حکومتی کمیٹی کے بنانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ کام کرنا ہی نہیں۔ جناب سرتاج عزیز کی کمیٹی کی سفارشات کو مکمل ہوئے بھی چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر میاں نوازشریف حکومت کیوں اس پر عمل نہیں کررہی ہے ؟کھبی رواج ایکٹ کو شامل کیا جاتا ہے تو کبھی اس کو پانچ سالوں میں اصلاحات چھونٹی کی رفتار چلتے ہوئے خود بخود نافذ ہو جائیں گے۔ قبائلی اور خیبرپختونخوا کے عوام کے ذہنوں کئی طرح کے خدشات جنم لے رہے ہیں اور کئی سولات گردش کر رہے ہیں کیونکہ قبائلیوں کے لیے آج تک جتنے کام کیے گئے وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حصے میں آئے جبکہ میاں نوازشریف کی حکومت کے لیے یہی سنہری موقع ہے کہ قبائلی عوام کے دل جیت کرتاریخ رقم کردیں تمام خدشات اور سوالا ت خود بخود ختم ہوجائیں گے اور فاٹا کو خیبرپختوخوا میں شامل کرکے ہمیشہ کے لیے عوام کے دلوں میں گھر کر جائے اورقبائلی عوام کو پاکستان کا برابر کے شہری کا درجہ مل جائے۔

No comments