اذیت سے بہت یہ ذہن ودل اپنا گزرتا ہے
(شاعرہ زیب النساء زیبی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اذیت سے بہت یہ ذہن و دل اپنا گزرتا ہے
انا کو چند سکوں کے لئے جب جھکنا پڑتا ہے
یہ نوکر پیشہ لوگوں کا بھی عالم کربلا کا ہے
سلجھتا ہے اگر اک مسئلہ تو اک الجھتا ہے
تمنائیں بھی یکساں خون بھی قسمت جدا کیوں ہے
یہ کس نے آدمی کو کمتر وبرترمیں بانٹا ہے
امربیل ایسا اس کا پیار لپٹا ہے مجھے گویا
میں اس میں جی رہی ہوں اور وہ بس مجھ میں زندہ ہے
ہماری دشمنی ہے جانیے سارے زمانے سے
کہ بس اک شخص کی خاطرجہاں سے بیر باندھا ہے
جو اک بچے کو دیکھوں، دیکھتا ہے دوسرا مجھ کو
میری مجبوریوں نے فرق بچوں میں بھی رکھا ہے
کوئی دکھ بانٹتا ہے اور کسی کو سہنا پڑتے ہیں
یہ انساں اپنی فطرت میں بہت ہی مختلف سا ہے
کوئی بچہ بجارو میں ،کوئی جاتا ہے پیدل ہی
خدایان علوم وفن نے کیسا فرق رکھا ہے
کبھی اپنی چھپائی ہی نہیں خامی کسی سے بھی
عیاں ہے وہ سبھی جو زندگی نے مجھ کو بخشا ہے
اٹھا دیتے ہو آسانی سے انگلی اوروں کی جانب
کہو اپنے مقابل بھی ، کبھی آئینہ رکھا ہے
بہت کھویا ہے خود کو،تجھ کو پالینے کی خواہش میں
تیری یادوں میں غافل ہو کہ یوں خود کو بھلایا ہے
لکھا ہے بس وہی میں نے ملی ہے جس میں سچائی
کہ آئینہ میری تحریر،عالم کی صدا کاہے
جو بچہ کھا رہا ہے روٹیاں کچرے سے چن چن کر
یہ حیرت ہے کہ مرتا کیوں نہیں وہ کیسے زندہ ہے
نہیں ہے مسئلہ یہ چندلوگوں کا فقط زیبی
یہ اجلے کالروں کا اجتماعی درد بنتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اذیت سے بہت یہ ذہن و دل اپنا گزرتا ہے
انا کو چند سکوں کے لئے جب جھکنا پڑتا ہے
یہ نوکر پیشہ لوگوں کا بھی عالم کربلا کا ہے
سلجھتا ہے اگر اک مسئلہ تو اک الجھتا ہے
تمنائیں بھی یکساں خون بھی قسمت جدا کیوں ہے
یہ کس نے آدمی کو کمتر وبرترمیں بانٹا ہے
امربیل ایسا اس کا پیار لپٹا ہے مجھے گویا
میں اس میں جی رہی ہوں اور وہ بس مجھ میں زندہ ہے
ہماری دشمنی ہے جانیے سارے زمانے سے
کہ بس اک شخص کی خاطرجہاں سے بیر باندھا ہے
جو اک بچے کو دیکھوں، دیکھتا ہے دوسرا مجھ کو
میری مجبوریوں نے فرق بچوں میں بھی رکھا ہے
کوئی دکھ بانٹتا ہے اور کسی کو سہنا پڑتے ہیں
یہ انساں اپنی فطرت میں بہت ہی مختلف سا ہے
کوئی بچہ بجارو میں ،کوئی جاتا ہے پیدل ہی
خدایان علوم وفن نے کیسا فرق رکھا ہے
کبھی اپنی چھپائی ہی نہیں خامی کسی سے بھی
عیاں ہے وہ سبھی جو زندگی نے مجھ کو بخشا ہے
اٹھا دیتے ہو آسانی سے انگلی اوروں کی جانب
کہو اپنے مقابل بھی ، کبھی آئینہ رکھا ہے
بہت کھویا ہے خود کو،تجھ کو پالینے کی خواہش میں
تیری یادوں میں غافل ہو کہ یوں خود کو بھلایا ہے
لکھا ہے بس وہی میں نے ملی ہے جس میں سچائی
کہ آئینہ میری تحریر،عالم کی صدا کاہے
جو بچہ کھا رہا ہے روٹیاں کچرے سے چن چن کر
یہ حیرت ہے کہ مرتا کیوں نہیں وہ کیسے زندہ ہے
نہیں ہے مسئلہ یہ چندلوگوں کا فقط زیبی
یہ اجلے کالروں کا اجتماعی درد بنتا ہے
Great thx
ReplyDelete