Breaking News

پختون مسلح تحریکیں اور پاکستان کی افغان پالیسی


: ایک پاکستانی پختون کا کھلا چیلنج
=====================================
ایک خاص ذہنی کیفیت اور نفسیاتی عارضے کے شکار نام نہاد قوم پرست اور لبرل طبقے نے میرے گرزشتہ پوسٹ میں دئیے گئے سیدھے سادھے حقائق کو بھی میرے اپنے قوم کی تضحیک اور "آئ ایس آئ کے بیانے" کے طور پر پیش کیا جسمیں میں نے افغان جہاد سے اور قیام پاکستان سے پہلے بھی پشتونوں کی بیرونی حملہ آوروں کے خلاف عسکری تاریخ کا ذکر کیا تھا - انکے لیے عرض ہے کہ صافی قبیلے سے تعلق رکھنے والے میرے ددھیال کے بزرگ بشمول میرے پردادا سرور خان اور انکے چچا زاد تاج ملوک حاجی صاحب ترنگزئی کی قیادت میں انگریز سامراج کے خلاف آزادی کے مسلح سپاہی رہے ہیں اور حلیمزئی مہمند قبیلے کے میرے ننھیال کے بزرگ بشمول میرے والدہ کے چچا حاجی زرین خان کے ١٩٤٨ کے اس قبائلی لشکر کا حصہ رہے جس نے آزاد کشمیر کو ڈوگرا ہندو سامراج سے واگزار کروایا- باوجود میرے ریاست کے خلاف مذہب کے نام پر لڑنے والوں دہشتگردوں سے شدید نفرت کے مجھے اپنے ان بزرگوں کے ان حالات میں انکے سمجھ بوجھ کے مطابق اسانی اقداراور قومی حمیت کیلئے اس بے لوث جدوجہد اور حریت پسندی پر فخر ہے جس نے انھیں جانی اور معاشی طور پر نقصان ہی پہنچایا- لیکن فساد اور جہاد کے درمیان کے باریک لکیر کو سمجھنے کیلئے مسلمان ہونے کے علاوہ تعصب سے آزاد نظر، فکری دیانت اور بنیادی حقائق کا علم ہونا ضروری ہوتا ہے جوکہ کم از کم ان احساس کمتری کے مارے جاہل اور فطری طور پر جھوٹے جعلی لبرلوں اور قوم فروشوں کے پیروکار نام نہاد قوم پرستوں میں نہیں ہوسکتی- اپنے اس پوسٹ کیلئے بھی حسب سابق میرا ایک پاکستانی پختون کی حثیت سے کھلا چلینج ہے کہ ناقدین گھٹیا گالیوں یا نعروں کے بجاۓ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر میرے گزارشات میں کوئی دروغ گوئی یا انکی طرح کے جھوٹے پروپگنڈے کا عنصر نکال دیں یاں البتہ غلطی کا احتمال ہر انسان سے ہوسکتا ہے جسکی میں معذرت کرکے درستگی کرسکتا ہوں-
حاجی صاحب ترنگزئی نے نہ مخالفین کے گلے کاٹے اور نہیں سکول تباہ کیلئے بلکہ "انگریزوں کے نوکر" اور اس وقت کے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ صوابی کے سر صاحبزادہ عبد القیم کی کوششوں اور خیبر پختونخوا کے انگریز چیف کمشنر سر روز کیپل کے تعاون سے بننے والے پختونوں کی سرزمین کے سب عظیم درسگاہ اسلامیہ کالج پشاور کی بنیاد رکھی جسکے پہلے پرنسپل علامہ مشرقی جیسے نابغہ شخصیت بنے اور جس کو بیرسٹر محمد علی جناح نے بعد میں اپنی جائیداد کا تیسرا حصہ وقف کیا- جبکہ حاجی صیب اسی انگریز سرکار سے حالات جنگ میں بھی تھے- سر روز کیپل نے پشتو بول چال پر غیر ملکیوں کیلئے پہلی کتاب لکھنےکے علاوہ گنج پشتو اور تاریخ محمود غزنوی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا تھا جبکہ صاحبزادہ عبدل قیوم ڈیورنڈ لائن کمیشن میں پختونخوا اور برطانوی ہند کی نمائندگی کرچکے تھے- حاجی صیب کے مجاہدین نے نہتے جنگی قیدیوں یا انگریز سرکار کے سپاہیوں کے سروں سے فٹبال نہیں کھیلی حتیٰ کہ سلطنت برطانیہ کے مارے ہوۓ سکھ سپاہیوں کے لاشوں کی بھی کبھی تذلیل نہیں کی بلکہ اگر چرچل کے اپنے یاداشت کو بھی بنیاد بنایا جاۓ تو انسانی حقوق اور جنگی اصولوں کی پاسداری میں انکا ریکارڈ انکے انگریز حریفوں سے بہتر ہی تھا- انہوں نے اپنے مخالفین پر وہابی یا طالبانی انداز کے تکفیر کے فتوے نہیں لگاۓ بلکہ انہوں نے تو افغانستان کے شاہ امان الله خان کے مغربی ترقی پسندی کے خلاف افغانی مولویوں کی بغاوت کے خلاف فتوا دیا- بلکل اسی طرح ہی افغان مجاہدین کا انسانی حقوق اور جنگی اصولوں کے متعلق رویے کا سوویت یونین کے قابض افواج کے وحشیانہ مظالم اور ڈاکٹر نجیب جیسے روسی کٹ پتلی حکمرانوں کا معصوم افغان عوام کے قتل عام اور مسلح مزاحمت کیلئے عوامی اور بین القوامی حمایت کے تناظر میں ہی منصفانہ جائزہ لیا جاسکتا ہے- یہ چند حقائق ہی فیس بک کے نعروں سے تاریخ سیکھنے والے کی آنکھیں کھولنے والوں کیلئے کافی ہیں- کوئی جاہل،سیکولرتعصب کا بیمار یا عقل کا اندھا ہی حاجی ترنگزئی جیسی عہد ساز شخصیت کا موازنہ ٹی ٹی پی کے حکیم الله محسود اور ملا فضل الله جیسے خوں آشام درندوں یا انکے پیروکاروں سے کریگا جنکے باقی ماندہ بزدل بھیڑیے فوج کی مار سےجان بچا کر افغانستان میں چپھے ہوۓ ہیں-
یہاں پر یہ وضاحت بہت ضروری ہے اپنے ہی لوگوں کے خلاف مذہب اور قوم پرستی کے امتزاج کفر کے فتوے لگانے کی روایت کی ابتدا کو عام طور پر دو قومی نظریے اور مطالعہ پاکستان وغیرہ سے شوروع کرکے افغان جہاد میں پاکستانی فوج کے متنازعہ کردار سے جوڑا جاتا ہے جس نے غلطیوں کی کفارہ سب سے زیادہ باوردی شہید دیکر پہلے ہی چکا دیا ہے - اس بہت حد تک جھوٹے بیانیے کو بہرحال دیسی سرخوں یا جعلی کمیونسٹوں کے زوال کے بعد پہلے پہلی دفعہ افغانی/کابلی اور ہندوستانی حمایت کے علاوہ مغربی سرکاری امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ملی جس سے ہماری قوم کے فکری امراض میں مبتلہ اور بدعنوان طبقات کو دوسراجنم ملا جن میں دیسی لبرلوں کے بھیس میں شکست خوردہ سابقہ دیسی سرخوں کی نئی شکل کے علاوہ پشتوں قوم پرستی کے نام پر کابل پرست اورسیکولر لبادے میں ہندوتوا کی پجاریوں کی آخری پود پیش پیش تھے- چڑھتے سورج کے پجاری یہی وہ لوگ تھے جنکی حمایت کی زعم میں اور کچھ حد تک بین القوامی حالات سے مجبورہو کر جنرل مشرف نے اپنا بدنام زمانہ یو ٹرن لیکر افغانستان کے فساد کو پاکستان تک پھیلانے کیلئے راستہ فراہم کیا چاہے نادانستہ طور پر سہی وگرنہ افغان جہاد کے دوران اور افغانستان کے خانہ جنگی میں بھی فاٹا پسماندگی کے باوجود ملک کے کسی بھی دوسرے حصے یا شہروں سے زیادہ پرامن تھا- افغانستان کے جہاد کو پہلے خانہ جنگی اور پھر وہابی تکفریت اور خود کش حملوں کے ذریعے موجودہ فساد بنانے میں پاکستان کی غلطیوں، افغانی تاریخ اور امریکا کے وہابی عسکریت پسندی سے ناجائز معاشقے کی کہانی ایک الگ موضوع ہے لیکن تاریخی طور پر مقامی حد تک پہلے کفر کے سیاسی فتوے گاندھی جی کے "امت" میں شامل دیوبندی مولویوں نے بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کے خلاف دئیے اور پھر وہی روایت پختونخوا میں کانگریس کے پٹھو نام نہاد پختون قوم پرستوں نے اپنے ہندو لیڈروں کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد کابل کے کٹ پتلی حکمرانوں سے مل کر پاکستان کے خلاف پختون قبائل کو اکسانے کیلئے استعمال کیا- حاجی صاحب کی طرح انکے بعد وزیرستان میں فقیر ایپی نے انگریز سرکار کو عسکری طور فاٹا اور جنوبی پختونخوا میں قدم جمانے نہیں دیا اور افسانوی شہرت حاصل کی جس کی وجہ سے بعد میں پاکستان کے خلاف روایتی افغانی سازشوں کا حصہ رہنے کے باوجود وہ پاکستان کے سرکاری بیانیے کے ہیرو رہے-
فقیر ایپی کو نام نہاد پختون قوم پرستوں نے کابل کے ذریعے پاکستان کی ریاست کو "رنجیت سنگھ کا پنجاب" "انگریز کی سازش" اور شیعہ اور احمدیوں کا مرکز قرار دیکراسکے خلاف مسلح بغاوت اور "جہاد" پر اکسایا جسکے نتیجے میں پاکستانی تاریخ کا یہ ممکنہ ہیرو گنامی کی موت مرا کیونکہ سلطنت برطانیہ کے خلاف لڑنے والے انکے اپنے کمانڈروں نے قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصۂ مزاحمت کے بعد بنوں کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے- پختونوں کے نام نہاد سیکولر اور "عدم تشدد کے پجاری" ترقی پسندوں کے سرپرستوں نے فقیر ایپی کو "امارت اسلامی پختونستان" کا امیرالمومنین بنانے کا جھانسہ دیا تھا- اس قصے کی تفصیل آج بھی انٹیلی جنس اور سرکاری ریکارڈ کے آرکائیوز میں افغانستان کے شاہ امان الله خان کے سابق اے ڈی سی کرنل شاہ پسند خان کے حوالے سے موجود ہوگی جو بعد میں جناح صاحب کی تحریک کے کارکن بنے - جمعہ خان صوفی صاحب کی یاداشتیں تواس تاریخ صرف ایک سیاہ باب ہے کاش پوری تاریخ واقعی پڑھا دی جاتی تو سوشل میڈیا پرمطالعہ پاکستان کی جھوٹ کا طعنے دینے والے تاریخ جان جاتے کہ ڈاکٹر نجیب تک ٧٠ سالوں کا حساب لینے کے چکر دینے پڑ گے تو آئندہ کئی نسلوں تک انکے ہندو فکری آقاؤں کے بقول اپنے پاپوں کی پراشچیت کرتے رہینگے-

No comments