Breaking News

پشتون تحریک۔ میڈیا اور سیاسی رہنما


   
  (شمس مومند)
یہ دو ہزار سات کی بات ہے ان دنوں خیبر نیوز ابھی شروع نہیں ہوا تھا میں اپنی ٹیم کے ہمراہ اے وی ٹی خیبر سے قبائلی علاقوں پر خصوصی پروگرام (بدلون) کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں کرم ایجنسی پاڑا چنار گیا ہوا تھا۔ سابقہ کمیشنر مرحوم صاحبزادہ محمد انیس ان دنوں کرم ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ تعینات تھے۔ انتہائی خوبصورت اور پر فضا گورنر ہاوس میں رات کے کھانے پر فاٹا کے حوالے سے گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ فاٹا کی صورتحال اس قابل نہیں کہ کوئی سفید پوش اور شریف بندہ یہاں رہ سکے۔ انہیں مجبورا نقل مکانی کر کے شہروں میں منتقل ہونا پڑتا ہے۔ انھوں نے بہت عجیب جواب دیا ۔ کہا کہ بات اس کی الٹ ہے یعنی فاٹا کی صورتحال میں اس وجہ سے بہتری نظر نہیں آتی ہے کہ جو بھی شریف اور تعلیم یافتہ ہے یا پیسے والا ہے جو امن کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور امن کے لئے کردار ادا کر سکتا ہے ۔ وہ صرف ذاتی امن اور آرام کے لئے فاٹا چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہورہا ہے۔جس کی وجہ سے فاٹا صرف ان پڑھ اورانتہا پسندوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن میں جب بھی فاٹا کے حالات کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے مرحوم صاحبزادہ انیس کی بات یاد آجاتی ہے اور دل ہی دل میں اس کی اہمیت اور سچائی کا اعتراف بھی کردیتا ہوں۔
یہ لمبی تمہید میں نے اس لئے باندھی تاکہ پشتون تحفظ مومنٹ اور پشتون سیاسی قیادت کے باہمی تعلق کی اہمیت کو اجاگر کر سکوں۔ پشتون تحفظ مومنٹ اس وقت صرف جذباتی نوجوانوں کا ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے۔جن کو پشتونوں اور خصوصا قبائل کے بے تحاشا مسائل کا نہ صرف ادراک ہے بلکہ وہ اس کے حل کے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ وہ بین الاقوامی حالات کے ادراک اور تجربے کی کمی اور ریاستی اداروں کی جانب سے فوری اور مثبت ردعمل نہ ملنے کیوجہ سے جذباتیت اور پشتون کے روایتی انتقامی رویے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن پشتون سیاسی قیادت سے میرا سوال ہے کہ اس میں ان نوجوانوں کا کیا قصور ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ نوجوان قیادت اور ہزاروں جذباتی نوجوان جذبات کی رو میں بہہ کر یا کسی کے ورغلانے سے غلط ہوکر ریاستی اداروں کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تو اس قومی تباہی کے ذمہ دار ان نوجوانوں سے زیادہ پشتون سیاسی قیادت ہوگی۔ کیونکہ جب پشتونوں کے نام پر سیاست کرنے والے پچاس ہزار پشتونوں کے مجمع میں نظر نہ آئے۔ جب اسلام کے نام پر سیات کر نے والے اور پشتون مسلمانوں کے ووٹ سے دو مرتبہ اقتدار کے مزے لینے والے پچاس ہزار مسلمانوں کے اجتماع کے روز مینار پاکستان میں پنڈال سجائے ۔ جب قوم اور وطن کے نام پر سیاست کر نے والے وطن کے رکھوالوں اور قوم کے بچوں کے دکھ سے انجان بن جائے۔جب ڈرون حملوں پر سیاست چمکانے والا ڈرون حملوں کے اصل متاثرین کے درمیان آنا گوارا نہ کرے۔ جب آئین کے تناظر میں بات کرنے والا عوام کے آئینی مطالبات کو خواص تک پہنچانے سے آنکھیں پھیر لے۔ جب قوم کی ایک برقعہ پوش بیٹی پچاس ہزار جذباتی نوجوانوں کو اپنی دکھ بھری داستان سنا کر رلا رہی ہو۔ اور اس کے سر پر ہاتھ رکھنے اور انہیں تسلی کے دو بول بولنے کے لئے تین تین مرتبہ ایم این اے سینیٹر وزیر اور کبیر رہنے والا کوئی سیاسی رہنماء موجود نہ ہو۔ تو یاد رکھوں کہ پھر سیاست نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ سیاست کا جنازہ نکلتا ہے۔اور انقلابات آتے ہیں۔ اس لئے میں انہی سطور کے ذریعے تمام ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کو خبردار کر رہا ہوں کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے بائیکاٹ ، ان سے کنارہ کشی ان کے مطالبات سے چشم پوشی انقلاب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔اس لئے میری گزارش ہے کہ تمام تجربہ کار سیاسی رہنماء ان نوجوانوں سے خوف کھانے اور کمتر سمجھنے کی بجائے ان کو گلے سے لگائے۔ ان کی سرپرستی اور رہنمائی کرے، پشتونوں کے حقیقی مسائل حکمرانوں سمیت مقتدر اداروں کے سامنے میز پر رکھے۔ اور اس کے حل کے لئے سیاسی مفادات پر مبنی داو پیچ کی بجائے اخلاص پر مبنی کوششیں کرے۔تاکہ ان کے آئینی و قانونی مطالبات بروقت حل ہو، اور ان نوجوانوں کی صلاحیتیں اور جذبہ آپ لوگوں کی سیاست و جدوجہد کے کام آئے۔ ورنہ یاد رکھوں کہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
جہاں تک مین سٹریم میڈیا کے بلیک آوٹ کا تعلق ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ سوشل میڈیا کے جدید دور میں اس سے اس تحریک کو کوئی خاص نقصان ہوا ہے۔ کیونکہ تمام حاضرین اپنے اپنے موبائل کے زریعے جلسے کو لائیو دکھا رہے تھے اور اگر ہر بندے کی ویڈیو صرف بیس افراد نے بھی دیکھی ہے تو اس طرح ناظرین کی تعداد کروڑوں سے بڑگئی ہے۔بلکہ اگر میں کہوں کہ باشعور نوجوانوں کا اتنا بڑا اور منظم جلسہ نہ دکھاکر میڈیا نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ اپنی نام نہاد آزادی کا بھرم کھول دیا۔ اپنا اعتماد کھودیا ، تو بے جا نہ ہوگا۔
مگر اس کھٹن موقع پر خیبر نیوز نے اپنی بساط کے مطابق پشتونوں کی اجتماع کو کوریج دیکر دنیا بھر میں پشتون ویورشپ کا حق ادا کردیا۔ اور کامران راجہ نے ثابت کردیا کہ دس سال تک پشتونوں کی آواز بننے والا چینل مظلوم پشتونوں کی آواز آگے پہنچانے سے گریز نہیں کرسکتا۔ اور حق پر مبنی خبر بیچنے کے لئے جس جرات و ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ان میں موجود ہے۔ ویلڈن خیبر نیوز۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

No comments