سکیورٹی اداروں سے محبت لیکن ؟
شمس مومند)۔۔)
تقریبا سوا سال پہلے جب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب آرمی چیف بنے تو ہم نے ایک کالم کے ذریعے فاٹا اور پختونخوا میں فوج اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے خلیج اور اس کی وجوہات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ اور خلوص دل سے چند تجاویز پیش کی تھی لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس میں سے کسی بھی نکتے پر کوئی واضح عملدر آمد نظر نہیں آئی اس لئے اس موضوع پر ایک مرتبہ پھر لکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ پاکستانی عوام اپنی فوج سے بے تحاشا محبت کرتی تھی۔ لیکن بوجوہ فاٹا اور پختونخوا میںیہ محبت پہلے اجنبیت، پھر دوری اور اب خدا نخواستہ نفرت میں بدل رہی ہے۔ فوج پرمکمل اعتماد اور ان کی محبت میں ان کے خلاف جو بات میاں بیوی گھر میں بیٹھ کر کہنامناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اب سر بازار محفلوں دفتروں حجروں اور جلسے جلوسوں میں ہو رہی ہے۔ ان کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔اس کی وجوہات جاننا اور اس کا سد باب کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔اس لئے اتمام حجت کے طور پر اس انتہائی توجہ طلب مگر حساس موضوع پر لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ تاکہ فوج اور عوام کے درمیان نفرت کی خلیج بڑھنے کی بجائے اس کو پاٹا جا سکے۔ یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ فوج کا اہم ترین کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، گزشتہ سولہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کیوجہ سے فوج کو سرحدوں کی بجائے شہروں میں بھی تعینات کرنا پڑا۔ لیکن چونکہ فوج کی تربیت عوام سے میل جول کی بجائے صرف دشمن پر نظر رکھنے کی خطوط پر ہوئی تھی۔وہ صرف حکم ماننے اور حکم منوانے کوفرض عین سمجھتے تھے۔ جبکہ آزاد منش پاکستانی عوام کسی بھی قاعدے قانون کی پابندی کے رودار نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ فوجی جوانوں نے ایک طرف تو بیش بہا قربانیاں دیکر دہشت گردی کا خاتمہ کردیا،اور اس پر بجا طور پر وہ محبت اور دادوتحسین کے مستحق ہیں۔
لیکن دوسری طرف فوجی چیک پوسٹوں پرغیر ضروری طویل قطار و انتظار، آپریشنوں میں بے تحاشا بے گناہ گرفتاریوں ، عوام کیساتھ انتہائی ہتک آمیز روئے اور وجہ بے وجہ کرفیوں کے نفاذ نے عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کی۔ اور ان اعمال کے تسلسل کیوجہ سے عوام کو ملنے والی تکالیف اور فوج سے دوری اب بے اعتمادی اور نفرت میں بدل رہی ہے۔ میں نہایت خلوص اور وضاحت کیساتھ ایک دو مثالیں دے رہا ہوں۔ پشاور کی آبادی تقریبا پینتیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے یہاں کا کینٹ ایریا صوبائی اسمبلی سے لیکر شامی روڈ، ڈیفنس ، ائیر پورٹ، گل برگ ، صدر ریلوے سٹیشن اور آرکائیوز کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی کل آبادی بمشکل تین سے پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہوگی۔ مگر صرف کینٹ ایریا کی حفاظت کے نام پر اس ایریا میں اٹھارہ فوجی ناکے لگے ہوئے ہیں۔ جس سے روزانہ لاکھوں افراد اور گاڑیوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں زیادہ رش نہ ہو وہاں کے چیک پوسٹ سے گاڑی دو سے پانچ منٹ میں گزر جاتی ہے لیکن بعض ناکوں پر غیر ضروری پوچھ گچھ کیوجہ سے یہ قطار دو کلومیٹر لمبی اور انتظار تیس سے چالیس منٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
غیر ضروری پوچھ گچھ کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ یہاں ہر گاڑی والے کا صرف شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے یا ان سے یہ رٹا رٹایا سوال کیا جاتا ہے کہاں سے آئے اور کہا جارہے ہو۔ نہ گاڑی کی تلاشی، نہ بندے کی تلاشی، نہ ہی کسی واک تھرو گیٹ یا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، بس ہر بندے کو گھور کے دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ بندہ روزانہ یہ سعی لا حاصل دیکھ دیکھ کر تنگ آجاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا ان فوجی جوانوں کی آنکھوں میں سکینر لگے ہوئے ہیں جو کارڈ، گاڑی اور بدن کو سکین کر کے اس کا تجزیہ کرتے ہیں یا پھر یہ صرف روزانہ لاکھوں لوگوں کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کی انجانی سی کوشش ہے۔ہر روز ان ناکوں سے گزرنے والے بے چارے لوگوں کی ناک بوں چڑھانا ، اس عمل پر آپس میں تنقید کرنا ان کے اندر نفرت کو ہوا دے رہی ہے، گزارش یہ ہے کہ اگر یہ ناکے شہریوں کی حفاظت کے لئے ہیں تو یہ صرف کینٹ ایریا تک محدود کیوں ہیں باقی شہر میں کیوں نہیں۔ اور اگر یہ بہت ضروری ہے تواسے پولیس کے حوالے کیا جائے کیونکہ یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ کینٹ ایریا میں واقع حساس دفاتر اور تنصیبات کی حفاظت کے لئے ہیں تو مہربانی کر کے صرف ان دفاتر اور تنصیبات کے قریب ناکے لگائے جائے اور وہاں جانے والوں کی جامہ تلاشی سمیت گاڑیاں بھی چیک کیا جائے۔ مگر پورے کینٹ ایریا میں روزانہ داخل ہونے والے کم وبیش دو لاکھ گاڑیوں اور دس لاکھ افراد کو اس روایتی اور غیر مفید طریقہ کار سے نجات دلائی جائے۔ کیونکہ ہماری دانست میں اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
فوج پر اعتماد کی کمی کی دوسری بڑی وجہ کمیشن زدہ اور کرپشن سے پر ٹھیکیداری نظام میں اس کی شرکت ہے، جو ایف ڈبلیو او اور این ایل سی سے لیکر اب چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ تک پہنچ گیا ہے جس میں سکولوں کالجوں اور ٹیوب ویلوں کی تعمیر تک شامل ہیں۔ اس پر نہ صرف انگلیاں اٹھ رہی ہے بلکہ اس پر اسی طرح کھلے عام تنقید ہورہی ہے جس طرح سی اینڈ ڈبلیوں، پبلک ہیلتھ یا دوسرے اداروں اور اس کے اہلکاروں پر ہوتی رہی ہے۔ اس لئے مکرر عرض ہے کہ فوج ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ اور اس اثاثے کو اس کی ساکھ اور قدر وقیمت سمیت بچانا ہم سب کا فرض۔ اس لئے دوسروں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع دینے کی بجائے فوج کے اندر ڈسپلن، تجزئے اور آڈٹ کے بہترین ۔۔نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے
درجہ بالا اسباب کا تدارک کیجئے تاکہ فوج اور عوام کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رہے اور دونوں مل کر وطن کی حفاظت کی بھاری ذمہ داری نبہا سکے۔
لیکن دوسری طرف فوجی چیک پوسٹوں پرغیر ضروری طویل قطار و انتظار، آپریشنوں میں بے تحاشا بے گناہ گرفتاریوں ، عوام کیساتھ انتہائی ہتک آمیز روئے اور وجہ بے وجہ کرفیوں کے نفاذ نے عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کی۔ اور ان اعمال کے تسلسل کیوجہ سے عوام کو ملنے والی تکالیف اور فوج سے دوری اب بے اعتمادی اور نفرت میں بدل رہی ہے۔ میں نہایت خلوص اور وضاحت کیساتھ ایک دو مثالیں دے رہا ہوں۔ پشاور کی آبادی تقریبا پینتیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے یہاں کا کینٹ ایریا صوبائی اسمبلی سے لیکر شامی روڈ، ڈیفنس ، ائیر پورٹ، گل برگ ، صدر ریلوے سٹیشن اور آرکائیوز کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی کل آبادی بمشکل تین سے پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہوگی۔ مگر صرف کینٹ ایریا کی حفاظت کے نام پر اس ایریا میں اٹھارہ فوجی ناکے لگے ہوئے ہیں۔ جس سے روزانہ لاکھوں افراد اور گاڑیوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں زیادہ رش نہ ہو وہاں کے چیک پوسٹ سے گاڑی دو سے پانچ منٹ میں گزر جاتی ہے لیکن بعض ناکوں پر غیر ضروری پوچھ گچھ کیوجہ سے یہ قطار دو کلومیٹر لمبی اور انتظار تیس سے چالیس منٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
غیر ضروری پوچھ گچھ کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ یہاں ہر گاڑی والے کا صرف شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے یا ان سے یہ رٹا رٹایا سوال کیا جاتا ہے کہاں سے آئے اور کہا جارہے ہو۔ نہ گاڑی کی تلاشی، نہ بندے کی تلاشی، نہ ہی کسی واک تھرو گیٹ یا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، بس ہر بندے کو گھور کے دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ بندہ روزانہ یہ سعی لا حاصل دیکھ دیکھ کر تنگ آجاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا ان فوجی جوانوں کی آنکھوں میں سکینر لگے ہوئے ہیں جو کارڈ، گاڑی اور بدن کو سکین کر کے اس کا تجزیہ کرتے ہیں یا پھر یہ صرف روزانہ لاکھوں لوگوں کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کی انجانی سی کوشش ہے۔ہر روز ان ناکوں سے گزرنے والے بے چارے لوگوں کی ناک بوں چڑھانا ، اس عمل پر آپس میں تنقید کرنا ان کے اندر نفرت کو ہوا دے رہی ہے، گزارش یہ ہے کہ اگر یہ ناکے شہریوں کی حفاظت کے لئے ہیں تو یہ صرف کینٹ ایریا تک محدود کیوں ہیں باقی شہر میں کیوں نہیں۔ اور اگر یہ بہت ضروری ہے تواسے پولیس کے حوالے کیا جائے کیونکہ یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ کینٹ ایریا میں واقع حساس دفاتر اور تنصیبات کی حفاظت کے لئے ہیں تو مہربانی کر کے صرف ان دفاتر اور تنصیبات کے قریب ناکے لگائے جائے اور وہاں جانے والوں کی جامہ تلاشی سمیت گاڑیاں بھی چیک کیا جائے۔ مگر پورے کینٹ ایریا میں روزانہ داخل ہونے والے کم وبیش دو لاکھ گاڑیوں اور دس لاکھ افراد کو اس روایتی اور غیر مفید طریقہ کار سے نجات دلائی جائے۔ کیونکہ ہماری دانست میں اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
فوج پر اعتماد کی کمی کی دوسری بڑی وجہ کمیشن زدہ اور کرپشن سے پر ٹھیکیداری نظام میں اس کی شرکت ہے، جو ایف ڈبلیو او اور این ایل سی سے لیکر اب چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ تک پہنچ گیا ہے جس میں سکولوں کالجوں اور ٹیوب ویلوں کی تعمیر تک شامل ہیں۔ اس پر نہ صرف انگلیاں اٹھ رہی ہے بلکہ اس پر اسی طرح کھلے عام تنقید ہورہی ہے جس طرح سی اینڈ ڈبلیوں، پبلک ہیلتھ یا دوسرے اداروں اور اس کے اہلکاروں پر ہوتی رہی ہے۔ اس لئے مکرر عرض ہے کہ فوج ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ اور اس اثاثے کو اس کی ساکھ اور قدر وقیمت سمیت بچانا ہم سب کا فرض۔ اس لئے دوسروں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع دینے کی بجائے فوج کے اندر ڈسپلن، تجزئے اور آڈٹ کے بہترین ۔۔نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے
درجہ بالا اسباب کا تدارک کیجئے تاکہ فوج اور عوام کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رہے اور دونوں مل کر وطن کی حفاظت کی بھاری ذمہ داری نبہا سکے۔
بالکل درست فرمایا
ReplyDelete