قطرمیں تاریخ ساز ادبی تقریب
ڈاکٹر نشاط احمد صدیقی (میڈیا سکریٹری۔ کاروان اردو قطر۔ دوحہ)
۱۲جنوری ۲۰۱۸کی شب دوحہ کے شائقین ادب کے لیے ایک یادگار شب ثابت ہوئی، اس رات اردو شعروادب کے مہ و انجم دوحہ کے شبنمی افق پر اس تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوے کہ ہم لوگوں نے یہاں ایک ادبی کہکشاں کو چلتے پھرتے محسوس کیا۔ سال گذشتہ کی روایت کوآگے بڑھاتے ہوے کاروان اردو قطر نے اس برس اپنادوسرا عالمی مشاعرہ ’’جشن ڈاکٹر راحت اندوری‘‘ کے عنوان سے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ڈاکٹر راحت اندوری اس وقت اردو شاعری کا ایک بڑا نام ہے اور یہ نام انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے بنایا ہے۔ تقریبا نصف صدی پر محیط ان کے ادبی سفر کی داستان بڑی دلچسپ اور چشم کشا ہے اوربجا طور پر انھیں احتجاجی لہجے کا شاعر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مشاعرے راحت اندوری کی پہلی شناخت بنے، لیکن انھوں نے اپنے شعری مواد، اپنی طرز پیش کش اور اپنے اچھوتے مضامین اور افکار و خیالات کے ذریعے مشاعروں کی تہذیب اور روایت میں جو تیکھا اضافہ کیا ہے وہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔ اس بزم کی رونق میں جن دیگر شعراء اور شاعرات نے اضافہ کیا ان کے ناموں پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس انتخاب کی اوٹ سے کسی قابل جوہری کا فن جھانک رہا ہے۔ لاریب یہ جوہری کاروان اردو قطر کے بانی صدر اور ہمارے قافلہ سالار عتیق انظر صاحب ہیں ۔ اقبال اشہر، معین شاداب، عنبرین حسیب عنبر، لیاقت جعفری، ابرار کاشف، شرف نانپاروی، دنیش باورا اور ستلج راحت نے اس تقریب کو چار چاند لگائے، دوحہ کے مقامی شعراء میں کاروان کے بانی صدر عتیق انظر، ندیم ماہر، قیصر مسعود، وصی بستوی اور راشد عالم راشد نے اپنی بھرپور شرکت سے سامعین کا دل جیتا۔ اس خوبصورت، تاریخی اور یادگا تقریب کی ایک مختصر روداد مندرجہ ذیل سطور میں قلمبند کی گئی ہے تاکہ اس مسرت میں زیادہ سے زیادہ اردو عاشقوں اورادب دوستوں کو شریک کیا جائے۔ تقریب کا آغاز کرتے ہوے کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں نے تمام حاضرین کا پر جوش استقبال کیا، کاروان کے چیرمین عظیم عباس، بانی صدر عتیق انظر، تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد علیم تھرڈ سکریٹری سفارت خانہ ہند، مہمان اعزازی جناب محمد عتیق چیرمین سرپرست کمیٹی مجلس فروغ اردو دوحہ قطر کو اسٹیج پر مدعو کیا اور مقامی و مہمان شعرا سے اسٹیج کو سجانے کے بعد تلاوت کلام اللہ کے لیے کاروان کے ممبر جناب محمد فاروق آسامی کو دعوت دی۔ تلاوت کلام اللہ کے بعد دوحہ کی معروف سماجی شخصیت، مختلف ثقافتی وادبی تنظیموں کے سرپرست اور کاروان کے چیئرمین جناب عظیم عباس نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا اور مشاعرے کے معاونین کا شکریہ ادا کیا، اس کے بعدمقامی اور مہمان شعرا کو میمنٹو پیش کیے گئے، تمام مقامی شعرا نے صاحب جشن ڈاکٹر راحت اندوری کے مبارک ہاتھوں سے میمنٹو وصول کیے جبکہ مہمان شعرا کی خدمت میں دوحہ، قطر کی مختلف ادبی اور سماجی شخصیات نے میمنٹو پیش کیے۔ اپنی اس یادگار اور تاریخی تقریب سے کاروان اردو قطر نے ایک اور نئی روایت کی بنا ڈالی، یعنی آف اسکرین کام کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجلس فروغ اردو کے سرپرست جناب محمد عتیق کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈبرائے فروغ اردو پیش کیا، دوحہ میں اپنی طویل اور مسلسل اردو نوازی کے پیش نظر یقینا وہ اس ایوارڈ کے مستحق ہیں ، انھوں نے صاحب جشن ڈاکٹر راحت اندوری کے مبارک ہاتھوں سے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اپنی تاثراتی تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ مجلس فروغ اردو اپنے مشہور عالمی سالانہ مشاعرے کے علاوہ مسلسل بائیس برسوں سے نثری ادب تخلیق کرنے والوں کی خدمت میں سالانہ ایوارڈ پیش کرتی آرہی ہے، ہر سال دو نثرنگاروں کی خدمت میں یہ ایوارڈ پیش کیا جاتا ہے جن میں سے ایک کا تعلق ہندوستان سے ہوتا ہے اور دوسرے کا پاکستان سے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ مجھے جب جب کوئی اعزاز یا ایوارڈ دینے کی کوشش کی گئی تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اچھا ادب تخلیق کرنے والوں کو ہم ایوارڈ دیتے تو ہیں لیکن ایوارڈ لیتے نہیں ، البتہ کاروان اردو قطر کا یہ ایوارڈ میں اس لیے قبول کر رہا ہوں کہ اپنی مختصر مدت عمل میں ان حضرات نے اردو کے بڑے شائستہ اور سنجیدہ پروگرام منعقد کیے ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلے گا لہذا جب محترم عظیم عباس نے مجھے کاروان کے اس فیصلے سے آگاہ کیا تو میں انکار نہ کر سکا۔ اس تقریب کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ اس میں کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری محمد شاہد خان ندوی کی ترتیب کردہ کتاب ’ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ۔ یادوں کے جھروکے سے‘ کی رسم اجرا عمل میں آئی۔ تقریب کے ناظم اور جدید لب ولہجے کی معروف آواز جناب عتیق انظر نے فرمایا: کہ اس کتاب کے مصنف ہمارے عزیز دوست اور کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں ندوی صاحب ایک علم دوست اور لکھنے پڑھنے سے گہرا تعلق رکھنے والے شخص ہیں ، وہ مترجم بھی ہیں اور اس سے پہلے کئی کتابوں کا ترجمہ کر چکے ہیں ، ان کی یہ نئی کاوش برصغیر کے مشہور عالم دین مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے بار ے میں ہے، اس موضوع پر مزید اظہار خیال کے لیے میں کاروان اردو قطر کے نائب صدر جناب حسیب الرحمن کو زحمت دوں گا۔ حسیب الرحمن صاحب نے کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف کراتے ہوے فرمایا کہ جناب محمد شاہد خاں کی یہ تازہ ترین کاوش حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ سے متعلق ہے، حضرت مولانا کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے، ان کی شخصیت گذشتہ صدی میں اپنی نظیر نہیں رکھتی، شاہد صاحب نے اس عظیم شخصیت سے جڑی اپنی یادوں کو اس کتابچے میں قلمبند کیا ہے اور بجا طور پر دریا کو کوز ے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے حضرت مولانا کے تربیتی اسالیب کو خاص طور سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، حضرت مولانا ایک بات اکثر فرمایا کرتے تھے اور جس کا تذکرہ اس کتاب میں بھی ہے کہ دنیا میں دو چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، ایک اخلاص اور دوسرے اختصاص، اگر کوئی انسان اپنے اندر یہ دو خوبیاں پیدا کرلے، یعنی کسی فن میں اسپیشلائزیشن حاصل کر لے اور اپنے اس فن سے وہ ڈیڈیکیشن کی حد تک مخلص بھی ہو تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ وہ کبھی ناکام نہیں رہے، اگر وہ سات پردوں کے پیچھے بھی جا کر کہیں چھپے گا تو یہ دنیا اسے ڈھونڈ نکالے گی، کیونکہ وہ اس دنیا کی ضرورت بن چکا ہوگا۔ حسیب الرحمن صاحب نے مزید فرمایا کہ: جن لوگوں کے پاس ضخیم کتابیں پڑھنے کی فرصت نہ ہو وہ جناب محمد شاہد کی اس کتاب سے بھی حضرت مولانا علی میاں کی شخصیت کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔ میں اس آڈیٹوریم میں موجود تمام خواتین و حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں ۔ جناب حسیب الرحمن صاحب کی اس گفتگو کے بعد ممتاز شاعر اور ادیب ڈاکٹر راحت اندوری کے ہاتھوں اس کتاب کی رسم اجراء عمل میں آئی۔ مذکورہ بالا کارروائیوں کے بعد کاروان اردو قطر کے نائب صدر ڈاکٹر ابو سعد نے صاحب جشن کی شخصیت پر ایک پر مغز مقالہ پیش کیا اور مشہور شاعر ابرار کاشف نے ان کی شاعری کے مابہ الامتیاز پہلوؤں کو سامعین کے سامنے اجاگر کیا، اس کے بعد مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد علیم تھرڈ سکریٹری سفارت خانہ ہند، کے ہاتھوں ، کاروان اردو قطر کے چیرمین عظیم عباس، بانی صدر عتیق انظر، جنرل سکریٹری محمد شاہد خاں اور کاروان کی منتظمہ کمیٹی کے تمام ارکان کی شرکت سے صاحب جشن اور صدر مشاعرہ ڈاکٹر راحت اندوری کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈ اور مبلغ ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا گیااور ایک ہزار سے زیادہ لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیوں کی گونج میں صاحب جشن کا استقبال کیا اور ایوارڈ کی تائید وتصدیق کی۔ اس کے بعد مشہور ناظم مشاعرہ اور شاعر ڈاکٹر معین شاداب نے نظامت کی مسند سنبھالی اور دوحہ کے معروف وہردلعزیز شاعر ڈاکٹر وصی بستوی نے اپنی منفرد شاعری اور خوبصورت ترنم سے شائقین کے کانوں میں رس گھولنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر وصی کے بعد مقامی شعرا میں ڈاکٹر راشد عالم راشد، قیصر مسعود، ندیم ماہر اور عتیق انظر نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا، جبکہ مہمان شعرا کی فہرست کچھ یوں رہی: ستلج راحت، دنیش باورا، شرف نانپاروی، ابرار کاشف، ڈاکٹر لیاقت جعفری، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر معین شاداب، اقبال اشہر اور صاحب جشن ڈاکٹر راحت اندوری۔ ان تمام شعرا نے مل کر شائقین دوحہ کی خدمت میں ایک خوبصورت اور یادگار مشاعرے کی سوغات پیش کی، مشاعرے کی کامیابی اور ناکامی دونوں میں ناظم مشاعرہ کا ایک اہم رول ہوتا ہے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس مشاعرے کی بے مثال کامیابی کا ایک راز معین شاداب کی بیدار نظامت میں بھی مضمر رہا۔ ہماری کوشش ہوگی کہ آئندہ سال بھی ہم لوگ دوحہ کے شائقین ادب کی خدمت میں ایک اور یادگار مشاعرہ لے کر حاضر ہوں ،
No comments