فیس بُک کا پاکستان
’’غلام حسین محب‘‘
جدید ٹیکنالوجی میں فیس بک ایک موثر اورکامیاب ذریعہ ہے کہ بچے بوڑھے سب اس کے اسیر ہیں بلکہ بری طرح اس کا شکار ہوچکے ہیں ۔ چند سال پہلے افریقہ اور عرب کے جن ملکوں میں بڑے انقلابات آئے ان میں فیس بک کا کردار سب سے اول اور نمایاں تھا۔ چونکہ اس سے زیادہ تر بچے اور نوجوان منسلک رہے ہیں اس لیے یہ کسی ملک کے مستقبل پر دیرپا اثر ڈال سکتا ہے ۔ میں نے بچوں کواکثر یہ کہتے سنا ہے کہ آپ کا فیس بک آئی ڈی کیا ہے ۔حالانکہ آئی ڈی کا لفظ جب آتا ہے تو ذہن میں باشعور اور بڑی عمر کے لوگ آتے ہیں فیس بک کے شکار نوجوانوں کو دیکھ کر اکثر بزرگ گالیاں اور بددعائیں دیتے ہیں حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں مارک زکر برگ کا ذکر کتنے احترام سے کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نیٹ میں ایک باکمال چیزکا اضافہ کرکے لوگوں کو مفت تفریح، ایک دوسرے کو جاننے اور معلومات کا خزانہ مہیا کیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لمحے لمحے کی تازہ خبربغیر ریڈیو،ٹی وی اور اخبار کے آسانی سے چند ثانیوں میں لاکھوں لاگوں تک پہنچ جاتی ہے چاہے کوئی صحافی ہو یا نہ ہواس لیے اس کو سوشل میڈیا بھی کہتے ہیں۔اس حوالے سے فیس بک کے دیوانے اس کی تعریفیں کرکے نہیں تھکتے ۔ پہلے وقتوں میں لوگ فضول وقت مختلف کھیلوں میں گزارتے تھے خصوصاً رمضان میں تاش کے کھیل،لڈو، شطرنج وغیرہ میں کھو کر روزہ کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ورنہ نیندسے تو کوئی سستی چیز تھی نہیں۔آج کل فیس بک سے آسان اور مصروف رکھنے والی کوئی چیز نہیں اس دنیا میں انسان ایک بارداخل ہوجائے تو پھر نکلنا مشکل ہے جیسا کہ ہم پرانے زمانے کی لوک داستانوں میں سنتے تھے کہ کہانی کا ہیرو چلتے چلتے جنات اور پریوں کے دیس میں داخل ہوتااور پھر وہاں سے نکلنے کے لیے ایک عمر گزر جاتی۔لیکن فرق یہ ہے کہ فیس بک کی دنیا اس خیالی دنیا سے زیادہ حسین اور مفید ہے کیونکہ اس میں مذاہب، قرآن، علماء، علم، فلم، موسیقی، حادثات، واقعات، خوشی، غم، سائنس،اسلام، سیاست، اطلاعات، خبریں ، سچ اور جھوٹ سمیت وہ سب کچھ ہیں جو اس دنیا میں ہیں یعنی انسان کی ساری دنیا اس میں سموئی ہوئی ہے اسی وجہ سے اس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔چند نوجوانوں سے ایک دینی عالم نے کہاکہ رمضان مبارک میں اپنا وقت فیس بک پر کیوں ضائع کرتے ہو تو لڑ کوں نے جواب میں کہا کہ غیبت اور تاش وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے تو فیس بک اچھا ہے اس سے تو ہم نے روزہ سے متعلق کافی مسائل سیکھے۔اسی طرح عام لوگ اس کو فحش اور غلیظ مواد کا ذریعہ سمجھتے ہیں حالانکہ اس میں سب کچھ غلط نہیں بہت اچھا مواد بھی دیکھنے کو ملتا ہے اگر کوئی سیکھنا چاہے ۔الغرض فیس بک کی مثال پختونوں کے حجرے جیسی ہے جس میں جرگے، تفریح، عقل و دانش کی باتوں سمیت روزمرہ کے واقعات اور معلومات ہوتے تھے جس سے سیکھ کر پختون معاشرے کا ایک مفید فرد بن جاتا تھا۔لیکن حجرہ گیا تو پختونولی بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔اور آج ہر پختون دوسرے پختون سے شکوہ کرتا اور مایوس نظر آتا ہے۔ فیس بک سے نکل کر ہمارا جوان کیا بن رہا ہے آئیے اس پر بھی تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔
فیس بک کے ان تمام فائدوں کے باوجود اس میں وہ کمزوریاں اور برائیاں موجود ہیں جس نے ہماری نئی نسل کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ جو کہنا یا لکھنا چاہے بغیر روک ٹوک کرسکتا ہے۔ اس کے جی میں جو آئے وہ آگے شئیر کرتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے کہ اس نے کیا کہا ہے۔
وہ حد سے زیادہ وقت فیس بک کو دیکر سکول کالج اور ڈیوٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے تو ساتھ ہی اپنی صحت کو داؤ پر لگا رہا ہے خصوصاً آنکھوں کا مألہ تو سب کو ہوسکتا ہے جبکہ گردے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اخلاقیات سے عاری ہورہی ہے فحش اور نازیبا الفاظ کے تبادلوں سے ان سے شرم و حیا نکل رہی ہے۔ بلکہ اب تو سیاسی پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف غیر اخلاقی مواد استعمال کرکے اسے سیاسی پروپیگنڈے کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ اکثر نوجوان چونکہ ٹیکنیکل لحاظ ماہر ہوتے ہیں تو وہ بعض سیاسی لیڈروں کا وہ حشر کردیتے ہیں کہ لوگ دیکھ کر ہی شرم سے ڈوب جائیں۔ مگر ان کو ذرہ برابر شرم محسوس نہیں ہوتا۔ اور اس طرح ان کی صلاحیتیں بجائے فائدہ کے نقصان میں صرف ہورہی ہیں۔تو کیا ہمارا یہ مستقبل تابناک ہوسکتا ہے اور اس سے ہم اپنی امیدیں وابستہ رکھ سکتے ہیں؟ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ میڈیا لوگوں کی ذہن سازی اور کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن سوشل میڈیا کا کردار اس کے برعکس ہے یہ ذہن میں بھڑکاؤ اور جوش تو پیدا کرتا ہے مگر بہت کم کردار ہوش اور دانش کے لیے ادا کرسکتا ہے۔ دوسری طرف بعض آن لائن نیوز ویب سائٹس اور پیجز بھی افرا تفری اور ہنگامی صورت حال پیدا کرنا اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مثلاًاس طرح کی بریکنگ نیوز چلا کر بلڈ پرشر کو ہائی اور لو کرتے ہیں۔
’’ارے یہ کیا ہوا چین نے پاکستان کے دشمن کے ساتھ وہ کیا کہ آپ غصہ ہوجائیں گے‘‘۔ ’’بھارت نے پاکستان کے خلاف وہ قدم اٹھایا کہ ہر پاکستانی مایوس۔۔‘‘ ’’ راحیل شریف نے انتہائی قدم اٹھانے فیصلہ کردیا‘‘۔ ’’وزیر اعظم استعفیٰ پر آمادہ‘‘۔ اسی طرح بے شمار خبریں روزانہ شئیر کی جاتی ہیں ۔ایک خبر سے آپ خوش اور دوسری سے آپ پریشان۔جو فیس بک کی زیادہ آزادی اور باز پُرس نہ ہونے کی وجہ سے ہے، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔جو جی میں آئے فیس بک کی نذر کردیا۔ نتائج کی کوئی فکر نہیں۔
اب آتے ہیں ہمارے آج کے موضوع پر کہ فیس بک اور پاکستان میں کیا چیزیں مشترک ہیں۔ہمارے معاشرے میں لوگ ہر غلط اور ناکارہ چیز کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہیں اور ہر ناجائز کام کرتے وقت کہتے ہیں ’’ پاکستان ہے یار کون ہے پوچھنے والا‘‘ یا کہتے ہیں ’’ پاکستان ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے‘‘ ۔ یہی صورت حال فیس بک کی بھی ہے بلا جھجک کہتے اور لکھتے ہیں ۔پاکستان میں کوئی بھی احتجاج اور مظاہرہ کوئی معنی نہیں رکھتانہ کسی حق کے لیے مطالبہ کوئی اثر رکھتا ہے۔بالکل فیس بک کی طرح کہ کسی بات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا ہے۔آئے روز پاکستانی سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے نئے در وا ہوتے ہیں تو ملزمان مزید ڈٹ جاتے ہیں مجال ہے کہ کوئی شرم آئے انکو۔حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی حکمران کے خلاف عوام کی طرف سے تھوڑی بھی ناراضگی کا اظہار سامنے آجائے تو وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فیس بک کا بھی پاکستان میں کوئی خاطر خوا نتیجہ سامنے نہیں آنے والااس لیے رونے اور ہنسنے کا مکس ایک ڈرامہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں اور دوسری معاشرتی تنظیموں کا کوئی اخلاقی اوراصولی لائحہ عمل نہیں ہوتا اس لیے تو روزانہ ٹی وی شوز میں مہمان آپس میں گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔میڈیا میں میں آئے روز سیاسی لیڈر ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو گمراہ
کرنے کے سوا کیا دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔
No comments